سیلاب کی سائنس

September 19, 2022

جس طرح آب و ہوا کی تبدیلی کے ساتھ بادل کا برسنا اور برف کا پگھلنا ایک قدرتی عمل ہے۔ اس طرح بہتے ہوئے چشموں اور پھر اس سے تخلیق شدہ دریائوں کی لہروں کا طلاطم میں تبدیل ہونا یعنی پانی کے بڑے بڑے ڈھیر(Mass) اور ولاسیٹی میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے پانی کا اپنے مطلوبہ چینل سے باہر نکلنا اور اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو ملیامیٹ کر دینا بھی ایک قدرتی عمل ہے جسے’’سیلاب‘‘ کہتے ہیں، جس کی وجہ شدید بارش، بلند و بالائی پہاڑوں سے گلیشیئرکا پگھلنا، پانی بردار بادل کا دفعتاً پھٹ جانا اور طوفان برق و باراں شامل ہوتی ہیں۔

عام حالت میں چشموں اور دریائوں کا پانی ایک سانپ کی مانند پیچ و خم کھاتا ہوا بہت ہی پرسکون انداز سے اپنی منزل یعنی سمندر کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ یہ دریائی سفر کے تمام گزرگاہ ہوتے ہیں جسے ’’چکردار‘‘ (Meandcr) کہتے ہیں، جس کے پانی کے اخراج (Discharge) ہونے کا عمل فرش بہائو (Bascflow) کے ساتھ ہوتا ہے ،جس کی عمودی بلندی چینل کے اندر تک محدود ہوتی ہے اور پانی کی یہ گزرگاہ صرف گرائونڈ کے پانی سے چارج ہوتا رہتا ہے۔

اس وجہ سے اس پر ادنیٰ درجے کی لہریں ہوتی ہیں اور کوئی طغیانی نہیں ہوتی۔ لیکن جب مذکورہ عوامل کے زیرِ اثر پانی کے بڑے بڑے ریلے تیز رفتاری کے ساتھ دریاؤں کی تخلیقی گزرگاہ میں داخل ہوتے ہیں تو طغیانی میں ’’سیلاب‘‘ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس صورتحال میں پانی دریائوں کی اپنی گزرگاہوں سے اوپر آکر بڑی تیزی کے ساتھ بہنے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وسیع و عریض علاقوں کو چینل کے دونوں جانب افقی حالت میں ڈھانپ دیتا ہے۔

یہ صرف پانی نہیں ہوتے بلکہ مڈ، سلٹ اور بڑے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اسے بعض اوقات ’’پتھروں کا سیلاب‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،کیوں کہ پتھر پانی کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً پاکستان کا حالیہ سیلاب 2022ء ان سب سیلابی اجزاء پر مشتمل علاقے سیلابی ریلا گزرنے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ خشک ہو جاتے اور سیلاب کی گزرگاہ کے طور پر ہمیشہ موجود رہتے ہیں جو ایک بہت ہی صحرائی میدانی علاقوں کی تشکیل کرتے ہیں جسے ’’سیلابی میدان‘‘(Flood Plain) کہتے ہیں۔ چونکہ چشموں اور دریائوں کی بلندی مختلف علاقوں میں مختلف ہوتی ہے۔

اسی وجہ سے ’’سیلاب میدان‘‘ کے پھیلائو کی وسعت ، بلندی اور سیلاب کی شدت پر ہوتی ہے۔ ارضیاتی سروے کے دوران سیلابی میدان سے گزرتے وقت یہ حقیقت مشاہدے میں آئی ہے کہ وسیع و عریض ’’سیلابی میدان‘‘ رفتہ رفتہ پانی کی نکاسی کے بعد ایک ہموار میدانی علاقوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو زرخیز مٹی کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مثلاً فلورینس، اٹلی کی تعمیر دریا کے کناروں اور سیلابی میدانی علاقوں میں ہوتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ دریا جہازوں کی منتقلی یا سفر کا ایک اہم وسیلہ ہوتا ہے لیکن یہ قدرتی آفت کے حوالے سے کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہوتا۔

اس کی وجہ یہ ہے چونکہ ہر دریا میں ہرسال سیلاب نہیں آتا لیکن یہ تمام دریائوں کا قدرتی عمل ہوتا ہے جہاں ادنیٰ اور اعلیٰ درجے کے سیلاب وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ادنیٰ درجے کے سیلاب سے تشکیل پانے والے ’’سیلابی میدان‘‘کو زراعت کے لئے استعمال کرتے ہیں مثلاً مصر میں دریائے نیل میں ہرسال آنے والے ادنیٰ درجے کے سیلاب سے اردگرد کی زمین سیلابی میدان میں تبدیل ہوجاتی ہیں ،جس میں مٹی کی تہہ جم جاتی ہے ،جس میں بہت سی فصلوں کی کاشت کی جاتی ہے۔

چونکہ بڑے اور تباہ کن سیلاب کم کثیرالوقوع ہوتے ہیں۔ اس سے سیلابی میدان کی قدرتی حقیقت کو پسِ پشت ڈال کر مختلف مقاصد کے لئے دنیا بھرمیں استعمال کیاگیا۔ حالاں کہ ضروری یہ تھاکہ اس سے پہلے ان علاقوں کی ارضیاتی تاریخ میں وقوع پذیر ہونے والے قدرتی آفت مثلاً سیلاب کے حوالے سے ریکارڈ کا بھرپور تجزیہ کرنا چاہئے تھا۔ دنیا میں اس مقصد کے حصول کے لیے تعداد امواج گراف کے ذریعہ رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ،کیوں کہ انسانی شعور نے اس حقیقت کو معلوم کرلیا ہے کہ جس طرح ’’آتش فشاں‘‘ کبھی بھی مردہ نہیں ہوتے یہ 100سال، 200سال یا 400سال کے بعد بھی متحرک ہو کر آگ اُگلنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے اطرافی آبادی ملبے کے نیچے دب کر ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی ہیں۔

مثلاً باگوٹا(Begota)کا آتش فشاں، ٹھیک اسی طرح لق ودق سیلابی میدان کو بھی خشک اور بنجر جان کر رہائش یا ریستوران وغیرہ میں تبدیل نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ کسی بھی وقت جب سیلابی ریلا جنم لے گا تو ہر حل میں سیلابی پانی قدیم سیلابی میدان سے ہی گزرے گا اور ہر شے کو تہہ و بالا کر دے گا۔ مثلاً 1993ء کا سیلاب جس کا شمار دنیا کے بڑے اور تباہ کن سیلاب میں ہوتا ہے، جس نے امریکا کے شہر بسمارک ، شمالی ڈاکوٹا اور دیگر سیلابی میدان کے 6.6 ملین ایکڑ رقبے کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ،جس میں 38افراد جان کی بازی ہارگئے اور 12بلین ڈالر کا رہائشی تعمیرات اور فصلوں کی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ یہ سیلابی میدان پر رکاوٹ ڈالنے کا ردعمل تھا۔

پاکستان کا حالیہ سیلاب بھی اسی طرح کے ردعمل کا منہ بولتا ثبوت ہے ،جس کے نتیجے میں سیلابی پانی کی بہت بڑی مقدار، تیزولاسیٹی اور پتھروں کی بھاری تعداد نے سیلابی میدان تک رسائی حاصل کرلی ہے ،جس نے ہوٹل، رہائشی مکانات، بجلی کے کھمبے، ریستوران اور زیر زمین کان کو بھی صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دیا۔ دوسری طرف سیلابی پانی میں گاڑی چلانا یا اس میں داخل ہونا بھی بہت مہلک اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

ایک عالمی تجزیہ کے مطابق ایک فٹ سیلابی پانی میں 800سی سی گاڑی پر 500پونڈ کا بغلی دبائو (Latial Flood) اثرانداز ہوتا ہے ،جس سے گاڑی، ڈولنے لگتی ہے یہ انتہائی خطرناک علامت ہے۔ 2فٹ پانی میں 1000کا بغلی قوت اور بالائی جانب 1500پونڈ کا قوت اچھال اثرانداز ہوتا رہتا ہے، بس گاڑی دو پہیوں پر کھڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بہت ہی خوفناک لمحہ ہوتا ہے۔ اگر پانی اتھلے گہرائی تک پہنچ جائے تو سڑک کا ایک حصہ ٹوٹ جاتا ہے اور گاڑیاں پانی میں غرق ہو جاتی ہیں۔ ان قدرتی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے بلااختیار اداروں کو حفاظتی اقدامات کے دائرہ کار کو وسعت دینا وقت کی اہم ضرورت ہو گئی ہے۔

سیلاب کنٹرول ساخت کی تشکیل سے دریائی علاقوں کے سیلابی پانی اور رسوب کارئی کے خطرناک اثرات کی شدت میں کمی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً چیک (Chcek)ڈیم کی تعمیر سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے بہت ہی سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ اس تقسیم کے ڈیم تمام طور پر دریا کے ذیلی گزرگاہ (Small Tribukay) پر تعمیر کی جاتی ہے، تاکہ پانی چشموں سے آنے والے سیلابی پانی کو مفید کیا جاسکے اور پھر سیلاب کے گزرنے کے بعد حسب ِ ضرورت اسے استعمال کیا جا سکے۔ لیکن اس کے لئے خاطر خواہ توجہ بھی درکار ہوتی ہے، کیوں کہ سلٹ اور دیگر معلق اجزاء ڈیم کے ذخیرہ اندوز اس وقت (Reservoir)میں تہہ در تہہ جمع بھی ہوتے رہتے ہیں۔

اس لئے باقاعدگی سے اس کی صفائی پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے جسے ’’ڈریجنگ‘‘ (Dredging)کے طریقے سے صاف کیا جاتا ہے، جس میں ایک مشین لگی ہوتی ہے جو جینیاتی چینل میں موجود سلٹ(Silt)کی صفائی کرتی ہے، تاکہ ڈیم کی گہرائی کم نہ ہو سکے۔اس کے ساتھ ہی مختلف ممالک آہنی کنکریٹ سے بنی ہوئی طولی پشتہ کی تعمیر پر خصوصی توجہ دے رہی ہے خاص کر وہ ممالک جن کے شہر، گاؤں اور تفریحی مقام دریا کے انتہائی کناروں پر آباد کئے گئے ہیں ،تاکہ سیلاب کے زمانے میں پانی کی وافر مقدار کو چینل میں کافی حد تک محدود رکھا جا سکے۔ سیلاب کے موسم سے قبل ہی مختلف مقامات پر نئے دریائی چینل بننا چاہئیں۔ یہ وہ اقدام ہیں، جس سے سیلابی میدان کے ردعمل کو بروقت روکنے کی گنجائش نظر آتی ہے۔