حامد رضا سے محمود ڈوگر تک

September 25, 2022

وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے اقتدار میں آتے ہی صحت انصاف کارڈ کا دوبارہ اجرا کیا، اس وقت پنجاب بھر کے 802 سرکاری اور نجی اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔انہوں نے چولستان کے 20ہزار مقامی کاشتکاروں کو فوری طور پرسرکاری اراضی دینے کے منصوبے کی منظوری دی۔سرکاری نوکریوں پر پابندی ختم کر دی۔30ہزار سرکاری نوکریاں دینے کا اعلان کیا ۔پولیس کیلئے خصوصی الائونس کی منظوری دی ۔سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثا کیلئے 10 لاکھ پکے گھروں کے نقصان کی صورت میں 4 لاکھ روپے فی گھر اور کچے گھر کیلئے 2 لاکھ روپے فی گھر امداد دینے کا حکم دیا ۔معذور ملازمین کو دس ہزار روپے الائونس دینے کا اعلان کیااور معذور افراد کی موجود 646 خالی اسامیوں پر فوری طور پر بھرتی کا حکم دیا۔ان کے اچھے کاموں کی فہرست تو خاصی طویل ہے مگرپچھلے دنوں انہوں نے دو آرڈرایسے دئیےکہ پورے ملک میں اربابِ علم و دانش کےدل جیت لئے۔ایک تو انہوں نے جو صاحبزادہ حامدرضا کو متحدہ علما بورڈ کا چیئرمین لگا یا ،اس پر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔دوسرا انہوں نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے معاملے میں اسٹینڈ لے کر یہ ثابت کیا کہ کام کرنے والے دیانت دارافسران کو پنجاب سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ جب ان کے تبادلے کی خبر سنی تھی تو مجھے دکھ ہوا تھا کہ لاہور ایک اچھے سی سی پی او سے محروم ہو گیا ہے۔

متحدہ علما بورڈ،جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے یہ بورڈ 1999میں صاحبزادہ حامد رضا کے والد گرامی صاحبزادہ فضل کریم کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا ۔وہ اس وقت صوبائی وزیر اوقاف ہوا کرتے تھے ۔ان سے میری پہلی ملاقات میانوالی میں مولانا عبدالستار خان نیازی کے گھر میں ہوئی تھی ۔ان دنوں مولانا نیازی نظر بند تھے اور میں ان کے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ صاحبزادہ فضل کریم دو مرتبہ صوبائی اسمبلی، دو مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔دو مرتبہ متحدہ علما بورڈ کے چیئرمین رہے ۔ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا ابوالفضل محمد سردار احمد کا شمار برصغیر پاک و ہند کے اکابر علما میں ہوتا ہے اور اہلِ علم انہیں محدثِ اعظم کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ان کاخاندان اہلسنت و جماعت کے نظریہ سے منسلک پاکستان کا بڑا علمی اور سیاسی خاندان ہے ۔سنی علما کی واضح اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطہ محدثِ اعظم کی شاگرد ہے۔صاحبزادہ فضل کریم جماعت اہلِ سنت کے بانیوں میں تھے ۔پہلے جنرل سیکرٹری تھے ۔جمعیت علمائے پاکستان کے سینئر نائب صدر بھی رہے۔ بحیثیت چیئرمین متحدہ علما بورڈانہوں نےبین المسالک ہم آہنگی اورفرقہ واریت کے خاتمے کی بھرپور کوشش کی ۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف ان کا جرأت مندانہ مؤقف ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

نوے کے عشرہ میں جب فرقہ واریت عروج پر تھی۔ انہوں نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم پر امن پسند علما کو اکٹھا کیااور خودکش حملوں، ڈرون حملوں اور طالبان کے خلاف جوعملی جدوجہد کی ،وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ ان کے بعد صاحبزادہ حامد رضا کو سنی کونسل کا چیئرمین منتخب کیا گیا ۔انہوں نے بھی اپنے والدگرامی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے جواں مردی سے دہشت گردی کے خاتمے کے خلاف جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا۔ بحیثیت چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب احسن انداز میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہوئے۔ ایک زمانہ ان کی ذہانت اور علمی صلاحیتوں کا قائل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ حسبِ عادت سیاسی فراست اور فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نفرتوں کے دور میں محبت اور رواداری کو فروغ دیں گے ۔ مذہب کوسیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے ۔ ہر طرح کی ظلم وزیادتی کے خلاف بلاتفریق و امتیاز اور سیاسی وابستگی سے بالا تر ہو کر آوازِ حق بلند کریں گے ۔

اگرچہ صاحبزادہ فضل کریم 25سال تک مسلم لیگ (ن) کے اتحادی رہے اور مشرف کی آمریت کا سامنا بھی جوانمردی کے ساتھ کیا مگر وہ ایک اصول پرست شخص تھے۔جب مزارات اولیا پر بم دھماکوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور پریڈ لین کی مسجد، مناواں دھماکے، پی این ایس مہران اور مون مارکیٹ جیسے سانحات رونما ہوئے تو انہوں نے مسلم لیگ (ن) سے اپنی راہیں جدا کر لیں کیونکہ انہیں صرف منظر نہیں پسِ منظر بھی دکھائی دے رہا تھا ۔ اسی طرح صاحبزادہ حامد رضا کو جب 2020میں عمران خان کی ہدایت پر وزیراعلیٰ پنجاب نے چیئرمین قرآن بورڈ نامزد کیا تو انہوں نے بہترین انداز میں فرائض سرانجام دیے مگر جیسے ہی پنجاب میں بزدار حکومت کا خاتمہ ہواتو فی الفور بحیثیت چیئرمین قرآن بورڈ سے مستعفی ہوگئے۔

اب آتے ہیں غلام محمود ڈوگر کی طرف ، اٹھارہویں ترمیم کے بعد امن و امان کے شعبوں میں صوبے خود مختار بنا دئیے گئے ہیں اور بیسویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کسی بھی صوبے میں کام کرنے والے وفاقی ملازمین کو صوبے کی مشاورت کے بغیر واپس نہیں لے سکتی ۔ نہ ہی ان کی پوسٹنگ یا ٹرانسفر میں دخل اندازی کر سکتی ہے۔سوغلام محمود ڈوگر کو پنجاب حکومت کی مرضی کے بغیر وفاقی حکومت کا واپس بلانا غیر آئینی تھا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر اس کا نوٹس لیا اور غلام محمود ڈوگر کو گلے لگا کر کہا کہ ہم آپ کو واپس نہیں جانے دیں گے ۔ وہ پہلے بھی سی سی پی او لاہور رہ چکے ہیں اور اس عرصہ میں لاہور میں امن و امان مثالی رہا۔وہ جہاں گئے ۔جس عہدے پر بھی رہے انہوں نےپوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا۔ مجھے لگتا ہے پرویز الٰہی اگر سال بھر وزیر اعلیٰ رہ گئے تو پنجاب کے مسائل بہت حد تک کم ہو جائیں گے۔ جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے ۔اسے دیکھنا وفاقی حکومت کا کام ہے۔ وہ تمام محکمے جو مہنگائی کم کرسکتے ہیں ،وہ وفاق کے پاس ہیں مگر پنجاب حکومت کو بھی مہنگائی کے توڑ کےلئے غریب عوام کے واسطے کوئی خصوصی پیکیج تیار کرنا چاہئے۔