شنگھائی تعاون تنظیم اور امریکی سامراجیت

September 27, 2022

وزیر اعظم شہباز شریف نے پچھلے دنوں سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے بائیسویں سربراہان مملکت کے اجلاس میں کہا کہ یہ فورم اپنے مشترکہ وژن اور باہمی اقدار کو علاقائی تعاون اور یکجہتی کے ٹھوس عملی منصوبوں کے ذریعے آگے بڑھانے کیلئے ایک بہترین فورم ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیہ کے مطابق اس فورم کے رکن ممالک کی باہمی معاملات میں مقامی کرنسیوں کا حصہ بڑھانے کے روڈ میپ کی منظوری بھی دی گئی۔ یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اس فورم میں رکن ممالک کے درمیان تجارت کیلئے مشترکہ کرنسی لانے کی بات چیت ہو رہی ہے جبکہ اس سے پہلے یورپین یونین نے بھی ایک مشترکہ کرنسی" یورو" اپنا رکھی ہے تاہم برطانیہ نے یہ مشترکہ کرنسی نہیں اپنائی کیونکہ اسکی معیشت امریکہ سے مربوط ہے۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد دنیا کے باقی ممالک کو اور خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک کو اپنا مطیع بنانا ہے اور اس میں ڈالر کی بین الاقوامی گردش اس پالیسی کا اہم جزو ہے۔اس سے پہلے کئی ممالک نے کوشش کی کہ وہ ڈالر کی بجائے کسی اور کرنسی میں تجارت کریں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک ڈالر کی اس یلغار سے انفرادی طور پر نبردآزما نہیں ہو سکتے، اس سلسلے میں عراق اور کیوبا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔اسلئے علاقائی تنظیمیں ہی اس کا نعم البدل ثابت ہو سکتی ہیں۔شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار اس وقت بہت اہمیت حاصل کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کے مقابلے میں چین ایک ابھرتی ہوئی اقتصادی سپر پاور بن چکا ہے۔پچھلے تیس برس میں امریکہ میں جی ڈی پی میں اضافہ اوسطاً 2.5 فیصد کی شرح سے اور چین میں6سے9فیصد کی شرح سے رہا ہے۔ اس وقت امریکہ میں مہنگائی کی شرح8سے10فیصد جبکہ چین میں2.5فیصد کے لگ بھگ ہے۔پچھلے تیس برس میںامریکہ میں حقیقی اجرت میں صرف 0.4فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ چین میں 1970ءکے مقابلے میں حقیقی اجرت میں اضافہ چار گنا اوراسکے ساتھ ساتھ چین 80 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔2021ءمیں امریکہ نے اپنے جی ڈی پی کا 3.48فیصد جب کہ چین نے 1.74فیصد حصہ دفاعی اخراجات پر خرچ کیا۔اس وقت دنیا بھر میں امریکی ٹیک کمپنیوں کے مقابلے میں صرف چینی کمپنیاں ترقی کر رہی ہیں۔ یوکرین کی جنگ میں چین نے آبزرور کاکرداراداکیا جبکہ امریکہ نے نیٹو کی ڈھاک بٹھانے کیلئے اپنا تن من دھن لگا دیا ہے جس سے دنیا بھر میں مہنگائی عروج ہے۔ موجودہ امریکی جارحانہ پالیسی کے مقابلے میں شنگھائی تعاون تنظیم تیسری دنیا کے ممالک کی بہت مدد کر سکتی ہے اور اس کا موازنہ یورپی اور امریکی امداد سے نہیں کیا جاسکتا جو کہ خالصتا منافع خوری اور اقتصادی اجارہ داری کے فروغ کیلئے دی جاتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا موازنہ روس سے کیا جا سکتا ہے جس نے 1917ءکے انقلاب کے بعد نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک میں جاری آزادی کی تحریکوں کو تقویت بخشی بلکہ ان ممالک کے بنیادی صنعتی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا جو امریکہ اوریورپی ممالک کے بنیادی نظریات کے ہی خلاف تھا۔شنگھائی تعاون تنظیم کوروس کی طرز پر تیسری دنیا کے ممالک کے بنیادی ڈھانچے اور انہیں انڈسٹریلائز کر نے کی پالیسی کو تقویت دینا ہوگی۔یاد رہے کہ انڈیا کی 35فیصد ، ایران کی 70فیصد اور مصر کی 95فیصد اسٹیل کی صنعت روس کی مدد سے ہی تیار ہوئی۔ عراق کو بجلی پیدا کرنےکے55 فیصد ، افغانستان کو 60 فیصد اورشام کو70 فیصد پلانٹ لگا کر دیے گئے۔شنگھائی تعاون تنظیم کو اس بات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ روس نے جو امداد تیسری دنیا کو دی تھی، وہ یا توگرانٹ کی شکل میں تھی، یا کریڈٹ کی شکل میں جو کہ طویل المدتی قابل واپسی ہونے کیساتھ ساتھ کم ترین شرح سود پر ہوتی تھی مثلاًبارہ سال پر محیط رقم صرف تین فیصد شرح سود پر دی جاتی تھی اور تیسری دنیا کے بہت سارے ممالک نے یہ قرض ان مصنوعات کی شکل میں واپس کیا جو روس کے اپنے ہی بنائے ہوئے کارخانوں کی پیداوار تھیں۔اس کے علاوہ خام مال کی شکل میں بھی قرضوں کی واپسی کی گئی مثال کے طور پر لیبیا نے روس کو تیل کی شکل میں اپنا قرض واپس کیا ۔ روس نے تیسری دنیا میں جتنے بھی پروجیکٹ لگائے وہ وسیع البنیاد منصوبے تھے مثلاً مصر میں اسما ڈیم ، انڈیا میں بھیلائی ڈیم اور انڈونیشیا میں نیشنل اسٹیڈیم کمپلیکس بنایا۔روس نے انڈیا میں چالیس بڑے پروجیکٹ لگائے جو ہیوی انڈسٹری، آئل انڈسٹری، میٹل آرجی اور پاور سیکٹر میں تھے۔اس بات سے قطع نظر کہ چین آج روس کے مقابلے میں بڑی اقتصادی طاقت بن چکاہے اور اسکو امریکی یلغار کا مقابلہ کرنا بھی آتا ہے لیکن شنگھائی تعاون تنظیم کے فوائد ممبر ممالک اسی وقت اٹھا سکتے ہیں جبکہ یہ فورم اپنی کرنسی کے ساتھ ساتھ ممبر ممالک کے اقتصادی مسائل حل کرے تاکہ ان ممالک کے عوام اور خاص طور پر متوسط اور غریب طبقوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں۔