ابرار ندیم اور رمضان جانی کا ’’دل روندا اے ‘‘

October 02, 2022

انسان اگر نیک نیت ہو اور اسے خدا کے ساتھ اپنے ہنر پر بھروسہ بھی ہو تو ایک نہ ایک دن اسے اس کا حق مل ہی جاتا ہے ۔بھلے وہ پبلک ریلیشن کے ہنر سے ناواقف ہو ۔ اسے دنیاداری نہ آتی ہو اور کسی نفع نقصان کی پروا کئے بغیر اس کے دل میں جو کچھ ہو وہی اس کی زبان پر بھی ہو ۔عام طور پر ایسا شخص نقصان ہی اٹھاتا ہے میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جنہیں زبردست ہنر ہونے کے باوجود بہت کم مقبولیت ملی یا نظرانداز کیا گیا۔ اس کی ایک مثال پنجابی اردو کا شاعر اور کالم نگار ابرار ندیم بھی ہے جو صف اول کا شاعر اور کالم نگار ہے مگر اسے اپنے ہنر کی وہ داد یا پہچان نہیں ملی جس کا وہ مستحق ہے ۔میں ایک طویل عرصے سے ابرار ندیم کو جانتا ہوں یہ ایک اچھا شاعر ادیب ہونے کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی قدروں کا حامل ایک نیک اور مخلص انسان ہے کچھ عرصہ پہلے اس کی ایک پنجابی غزل بہت زیادہ مشہور ہوئی جسے ہمارے دوست نامور ادیب اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے بھی دوستوں کی کسی محفل میں پڑھا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل ہوئی ۔

اتھرو تارا ہوسکدا اے

دکھ دا چارا ہوسکدا اے

اکو واری فرض تے نہیں ناں

عشق دوبارا ہوسکدا اے

لیکن مجھے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب ایک انیس بیس برس کے لڑکے رمضان جانی نے اس کا پنجابی گیت ’’دل روندا اے ‘‘ گایا ۔ابرار کا یہ گیت سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے اپنا دل نکال کر کاغذ پر رکھ دیا ہو اور رمضان نے اپنی دلکش آواز سے اس میں جان ڈال دی ہو ۔ آج کل سوشل میڈیا پر ہر طرف اس گیت کی دھوم ہے اور اس نے جس تیز رفتاری سے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی مگر ظلم یہ ہے کہ اس گیت کے ساتھ اس کے شاعر ابرار ندیم اور گلوکار رمضان جانی کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم ہے ۔گزشتہ دو ہفتوں میں جب سے یہ گیت سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہوا ہے اب تک اس پر چھ لاکھ سے زائد ٹک ٹاک ویڈیوز بن چکی ہیں جسے کروڑ ہا افراد دیکھ اور شیئر کر چکے ہیں ۔اس کے ساتھ فیس بک اور یو ٹیوب پر بھی اس گیت کے خوب چرچے ہیں بلکہ پچھلے ہفتے میں تو یوٹیوب پر میوزک ٹرینڈنگ میں یہ گیت تیسرے نمبر پر رہا ہے ۔جب تک آپ میرا یہ کالم پڑھیںگے ممکن ہے اس گیت پر بننے والی ٹک ٹاک ویڈیوز کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ جائے ۔یہ گیت آپ سوشل میڈیا پر تو سن ہی سکتے ہیں لیکن آپ اگر یہ گیت پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اسے یہاں پڑھ لیں ۔

دل روندا اے ،کِتے دور سمندروں پار کوئی، جدوں گیت ہجر دے چھوہندا اے،دل روندا اے، دل روندا تے کرلاندا اے ۔

سکھ نفل نمازاں، منتاں سو، ترے ملن نوں ہاڑے پاندا اے، جدوں ہولا ہو کے ککھاں توں، چھڈ اپنی راجدھانی نوں، کوئی رانجھا تخت ہزارے دا، پوہ، ماگھ دی ٹھردیاں راتاں چ، کِتے اجڑی پجڑی جوہواں چ،نت، ہیر سیال دے درشن لئی، بن جوگی تھاں تھاں بھوندا اے ،دل روندا اے، دل روندا تے کرلاندا اے۔

لج لاہ کے آل دوا لے دی،کسے بُلے وانگ نچاندا اے، کدی ساون مینہ دیاں جھڑیاں چ، ہجراں دیاں لمیاں گھڑیاں چ، کسے یاد دی بکل مار کوئی، دکھی دل دے چھیڑ کے تار کوئی، جدوں کھوہ نیناں دے جوہندا اے، دل روندا اے، دل روندا تے کرلاندا اے ۔

جیویں ہجر دے رنگلے چرخے تے، کوئی لمیاں تنداں پاندا اے ،جدوں وچھڑی کونج قطاراں توں، وکھ ہو کے گوڑیاں یاراں توں، ہن ڈار کِتے کرلاندی اے، جِند ڈکو ڈولے کھاندی اے، کوئی کلاکارا ہجراں چ، جدوں پیڑاں ہار پروندا اے، دل روندا اے، دل روندا تے کرلاندا اے،

فر عشق دی دُھخدی دی دھونی چ، کوئی مچدے بھانبھڑ لاندا اے، کِتے دور سمندروں پار کوئی، جدوں گیت ہجر دے چھوہندا اے ،دل روندااے، دل روندا تے کرلاندا اے۔

میں جب یہ گیت کاغذ پر اتار رہا تھا مجھے لگتا تھا یہ آج کے کسی عاشق ،کسی شاعر کا کلام نہیں بلکہ یہ نسل در نسل ،سینہ بہ سینہ، دکھوں کی وہ لہر ہے جس نے ایک نیا جنم لیا ہے اور ابرار ندیم کے بطن سے ظاہر ہوئی ہے میں نے یہ نظم جتنی بار پڑھی ہے مجھے ہر دفعہ لگا کہ اس میں بیان کئے گئے دکھ ایک شاعر کے ہجر کی داستان ہی نہیں بلکہ ہمارے کچے گھروندوں کی دیواروں سے ٹکرانے والے نوحے ہی ہیں یہ نوحےہماری لوک شاعری کا حصہ ہیں مگر جنہوں نے یہ نوحے لکھے وہ بھی انہی کی طرح گمنام ہیں جن کے حوالے سے یہ نوحے لکھے گئے ۔ابرار ندیم، اللہ تمہیں لمبی زندگی دے اور عزتوں سے نوازے، ہمارا یہ رونا اور کرلانا اور اس میں پھر غم و اندوہ اور جذب و مستی کی آمیزش نے پوری نظم کو لوک شاعری میں تمہارے نام سے منسوب کر کے امرکر دیا ہے !تم بہت خوش قسمت ہو۔