دو صدیوں کی غلامی

October 07, 2022

یہ ربیع الائول کا مہینہ ہے، اس مہینے سرکار دو عالم حضرت محمدؐ کی آمد ہوئی۔ ہم ہر سال جشن مناتے ہیں اس سال بھی جشن منا رہے ہیں۔یہ مہینہ ہمارے سامنے کئی سوال رکھتا ہے جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم خود اور اپنے بچوں کو سیرت النبی ؐ سے آگاہ کر رہے ہیں ،کیا ہماری زندگیوں کے سامنے سرکار مدینہؐ کی زندگی ہے؟ایسا اگر نہیں ہے تو اس میں کس کا قصور ہے ؟کیا یہ ہمارا اپنا قصور نہیں، ہم دنیاداری میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہمیں یہ یاد ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’تمہارے لئے نبی پاک حضرت محمد ؐکی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم دنیاداروں نے مغرب پرستی کی آڑمیں وہ سب کچھ تو نہیں بھلا دیا جس کا حکم ربِ کائنات نے دیا ہے ۔یقیناً ایسا ہی ہے ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں اکثر لوگوں نے مختلف لوگوں کو اپنا رول ماڈل بنا رکھا ہے ،ہم نہ سیرت سے متعلق خود آگاہی حاصل کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے رسول ؐ کی زندگی کس قدر اہم ہے، ہمارے رسول پاکؐکی زندگی کا ایک ایک لمحہ دنیا و آخرت کے لئے عظیم درس ہے۔آج ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمانوں کی تنزلی کی بڑی وجہ یہی ہے کہ مسلمان اپنے عظیم رسول ؐ کی زندگی سے کچھ نہیں سیکھتے۔باقی مسلمان ملکوں کا تذکرہ ایک طرف رکھ کر اپنے ملک کا حال دیکھ لیجئے ۔عمران خان کی حکومت نے رحمت للعالمین ؐ اتھارٹی بنائی تھی تاکہ لوگوں کو حضرت محمد ؐ کی زندگی سے متعلق آگہی دی جائے، لوگوں کو محمد ؐ کے فلسفے سے آگاہ کیا جائے مگر پانچ ماہ پہلے جب موجودہ حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت نے آتے ہی رحمت للعالمین ؐ اتھارٹی ختم کر دی ۔حکومت نے یہ کیا کیا، کیوں کیا، کسے خوش کرنے کی کوشش کی؟ کوئی جواب حاصل نہیں ہوسکا۔ سابقہ حکومت نے کوشش کی کہ طالب علموں کو دورانِ تعلیم قرآن پاک کی تعلیم لازمی دی جائے ،موجودہ حکومت نے اس کوشش پر بھی پانی پھیر دیا۔ حیرت ہے مولانا فضل الرحمٰن اس تمام عرصے میں خاموش رہے بلکہ وہ تو ٹرانس جینڈر بل منظور کرنے والوں میں بھی شامل تھے ، کیا اقتدار اتنا ضروری ہے کہ اس کی چاہت میں اپنی اقدار اور اخلاقیات سے انحراف کیا جائے، دینی معاملات میں کوتاہی برداشت کرلی جائے۔سچی بات ہے مجھے مولانا صاحب کے اس طرز عمل سے دکھ ہوا، کم از کم انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔

موجودہ حکومت کی ان کاوشوں کے دوران مجھے صاحبزادہ نور الحق قادری یاد آتے رہے جو پچھلے دور میں ہمہ وقت اس تگ ودو میں لگے رہتے تھے کہ حضورؐ کی تعلیمات کوعام کیا جائے، معاشرے کو نبی پاکؐ کے پیغامات کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔اس سلسلے میں نور الحق قادری کو عمران خان کی مکمل اشیرباد حاصل تھی وہ بھی تو عاشق رسول ؐ ہے ، کیا آپ جانتے نہیں کہ وہ جب بھی مدینے گیا ننگے پائوں گیا، روضہ رسول ؐ پر بیٹھ کر روتا رہا، گڑگڑاتا رہا، دعائیں کرتا رہا ۔

برسوں پہلے پیر امین الحسنات نے جسٹس پیر کرم شاہ الازہری کی سیرت النبی ؐ پر کچھ تصانیف مہیا کی تھیں پھر ایک روز پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے چند کتابیں دیں ۔اس کا مطلب ہے کہ کہیں نہ کہیں سیرت کے حوالے سے کام ہو رہا ہے لاہور میں ڈاکٹر طارق شریف زادہ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ملک بھر سے ایک سو طالب علموں کو سیرت اسکالرز بنانے کا پروگرام شروع کیا ہے ۔

صاحبو! سیاست ایک طرف رکھو، سوچو کہ کیا دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اربوںمسلمان اپنے پیارے رسول ؐ کی سیرت پر عمل پیرا ہیں؟ جواب اگرہاں میں مل جائے تو پھر سوچو کہ کیا مسلمان ملکوں کے حکمران نبی پاکؐ کے بتائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمان یا مسلمان ملکوں کے حکمران نبی ؐ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے تو ہماری بطور امت دنیا میں رسوائی ہوتی ؟ہمارے ملکوں میں تو بذریعہ سود اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ جاری ہے ہم تمام ان راستوں سے ہٹ چکے ہیں جو محمد ؐ کے بتائے ہوئے راستے ہیں ، اب بھی وقت ہے ہمیں رسول خداؐ کے پیغامات پر عمل کرنا چاہئے ۔اگر ہم نے یہ کرلیا تو پھر رسوائیوں کا عہد ختم ہو جائے گا، ہم ترقی کی دوڑ میں بھی باقی دنیا کو پیچھے چھوڑ دیں گے ہمیں صرف رسول ؐ کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے پھر کوئی اسرائیلی ہمارے کسی فلسطینی بھائی بہن پر ظلم نہیں کر سکے گا، کوئی بھارتی فوجی کشمیر میں کسی نوجوان کو شہید کرنے کی جرأت نہیں کرے گا، پورے ہندوستان میں کوئی جنونی ہندو ہمارے مسلمان بھائیوں کو مارنے کی کوشش نہیں کرے گا، میانمار میں کسی کو یہ ہمت نہیں ہو گی کہ وہاں کے لوگ کسی مسلمان کا گلا کاٹ سکیں۔پھر کسی مغربی ملک میں آزادیٔ اظہار کے نام پر ہر دوسرے سال ہمارے رسول ؐکی توہین نہیں ہو سکے گی۔ایک صدی پہلے علامہ اقبال ؒنے اس ملت سے بہت کچھ کہا تھا، آج ان کی نظم ’’اے پیر حرم‘‘ یاد آ رہی ہے:

اے پیر حرم! رسم ورہِ خانقہی چھوڑ

مقصود سمجھ میری نوائے سحری کا

اللّٰہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!

دے ان کو سبق خودشکنی، خود نگری کا

تو ان کو سکھا خارا شگافی کے طریقے

مغرب نے سکھایا انہیں فن شیشہ گری کا

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی

دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

کہہ جاتا ہوں میں زور جنوں میں ترے اسرار

مجھ کو بھی صلہ دے مری آشفتہ سری کا