جنازے کا آنکھوں دیکھا حال

October 16, 2022

نوابزادہ لیاقت علی خان کا جنازہ 17اکتوبر 1951کو ان کی اقامت گاہ 10 وکٹوریہ روڈ سے ٹھیک بارہ بجکر 45منٹ پر اٹھایا گیا تھا۔ نماز جنازہ ایک بجکر 36منٹ پر پولو گرائونڈ میں ممتاز عالم دین مولانا احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی اور پھر جلوس ہیولاک روڈ، الفٹن اسٹریٹ، گارڈن روڈ، بندر روڈ اور محمدعلی جناح روڈ سے ہوتا ہوا نمائش گاہ پہنچا جہاں ملت اسلامیہ کے سرمایہ حیات قائداعظم محمد علی جناح کو تین سال ایک ماہ اور 5 دن پہلے سپرد خاک کیا گیا تھا۔

جلوس میں کم و بیش 7 ,8 لاکھ افراد تھے ،جن میں مرد، عورتیں بچے بوڑھے اور جوان سب ہی شامل تھے۔ قائد ملت کی والدہ محترمہ جو مجسم غم کی صورت تھیں، کی حالت کسی سے دیکھی نہ جارہی تھی، وہ اپنے نامور سپوت کو جسے انہوں نے اپنی گودی میں کھلایا تھا ،لوری دے کر اور تھپک تھپک کر سلایا تھا،انہیں مٹی دینے آئی تھیں۔

قائدملت کی بیوہ ان کےبڑےصاحبزادے، وزارت میں ان کے رفقا کار، گورنر جنرل پاکستان، بیرونی ممالک کے سفیر اور عمائدین شہر تھے۔ ہر شخص کا چہرہ اداس، آنکھیں پرنم اور جسم نڈھال تھا، مگر نظم و ضبط کو ہاتھ سےنہ جانےدیا عوام کی یہ غیرمعمولی تنظیم پاکستان کے لازوال عزم و استقلال کی مظہر تھی۔

جلوس جب قائد ملت کی اقامت گاہ سے چلا تو ہزاروں آدمی جلوس کے ساتھ تھے۔ جلوس کے آگے بحری فوج کے ایک افسر اعلیٰ ہاتھ میں برہنہ تلوار لئے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے بحری، بری اور فضائی فوج کے جوان اور افسر تھے، جن کے چہرے غمگین اور اداس تھے، مگر جن کی چال میں عزم و استقلال نمایاں تھا ۔بحری فوج کے جوان سفید براق پوشاک پہنے ہوئےتھے، ان کے سروں پر سفید ٹوپی اور گلوں میں نیلا رومال تھا، ان کے کاندھوں پر بندوقیں تھیں، جن میں سنگینیں لگی ہوئی تھیں۔ بری فوج کے جوان خاکی وردی پہنے تھے، ان کے سروں پرنیلی ٹوپی تھی، یہ نوجوان دوسری عالمگیر جنگ کے بعد دنیاکے کونے کونے میں اپنی بہادری اور جانبازی کیلئے مشہور تھے ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔

بری فوج کے بعد فضائی فوج کے جوان تھے۔ ان کی آسمانی رنگ کی ٹوپی تھی۔ ان کے قدم آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے۔ پاکستانی فوج کے جوانوں کے بعد گورنر جنرل کے خاص باڈی گارڈ گھوڑوںپر سوار ہاتھوں میں سیاہ و سبز جھنڈیاں لئے چل رہے تھے۔ گھوڑوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں ان کے درمیان قائد ملت کا جسد خاکی ایک توپ پر رکھا تھا، جسے بحریہ، بری اور فضائیہ کے جوان کھینچ رہے تھے۔ محافظوں کے اس دستے کے بعد پاکستان کے وزرا، غیرملکی سفرا اور عمائدین شہر اور پھر لوگوں کا ہجوم تھا۔

جب جلوس ایوب کھوڑو روڈ سے پولو گرائونڈ پہنچا تو وہاں لاکھوں کا مجمع تھا۔ لوگ مکانوں کی چھتوں کھڑکیوں، شہ نشینوں، دروازوں سے اپنے محبوب رہنما کا آخری دیدار کررہے تھے۔ اسی مقام پر قائد ملت نے 14 اگست 1951 کو سلامی لی تھی۔ یہاں ایک بجکر 28 منٹ پر جنازہ لایا گیا۔ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں لاکھوں افراد کا یہ ہجوم اس سے پہلے کبھی پولو گرائونڈ میں دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ لوگوں کو اپنے محبوب رہنما کا شدید غم تھا۔

نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد جلوس نمائش گاہ کی طرف بڑھا، جہاں شہید ملّت کے جسد خاکی کو اپنے دیرینہ امیر اور پرانے ساتھی قائداعظم کے پہلو میں 3بجکر 8 منٹ پر قبر میں اتارا گیا اور ٹھیک 3 بجکر 14 منٹ پر سپرد خاک کردیا گیا۔