ووٹر! اپنا حق لو

November 26, 2022

پاکستانی ووٹرو ! آئو، سنو اور سمجھو،یہ تو مکمل ثابت ہوا کہ ہمارے 75سالہ ملک و معاشرے میں عوام کو کوئی عزت دیتا ہے نہ اپنی کرواتا ہے۔ آئین ہمارے حقوق کا ضامن ضرور ہے ،جو دیتا ویتا کچھ نہیں، یوں عوام الناس کو حتمی تجربہ یہ ہوا کہ حقوق مانگے نہ جائیں خود ہی لینا پڑیں گے ۔مطالبے علاج نہیں،بیداری اور دبائو سے شفا ہو گی۔شکر ہے اس کی پوری سمجھ آگئی ،کوئی ابہام نہیں رہا یہ بھی رب کا شکر اداکرو کہ بالآخر غصب حقوق کی بازیابی کا زمانہ آ گیا اور ماحول بھی بن گیا ۔ہمیں (ایٹ لارج) ہوش آگیا جوش بھی کم نہیں توازن بھی ہے اور مدد خدا بھی بمطابق وعدہ واضح ہوئی ۔اقتدار کی جاری مدت میں ووٹر کو جو عزت ملی اس کے حقوق آج بھی جس طرح غصب اور ان کے حصول کے عزم پر مہلک دھمکیاں، لیکن شاباش ووٹر !مقابل تمہارا عزم بھی تو عزمِ صمیم ہے ۔’’آئینی اقتدار‘‘ کی مدت میں آئین کی صریح خلاف ورزیوں اور غصب شدہ حقوق کی بازیابی کے عہدو اظہار کی ہمت و جرأت پر اجارہ داروں کی پر خطر برہمی نے ’’اسلامی جمہوریہ ‘‘ پر مسلط نظام بد کو مکمل ہی تو برہنہ کر دیا۔ معلوم ہوا کون کیا ہے؟کچھ چھپا نہ رہا ملک جس طرح اور جتنا لٹا اور کس کس نے لوٹا، اجاڑا یہ تو اب بحث ہی نہیں ،سب کچھ بے نقاب، مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے مجموعی رویے سے ہر دو کے تیور یہی معلوم دے رہے ہیں کہ ’’میڈیا ٹرائل ‘‘ کے ملزم ہدف اپنے اپنے لیکن کرپشن کلچر کی بے نقابی کا میڈیا ایجنڈا سیٹ ہو گیا۔ انتخابی مہم کے باقاعدہ آغاز تک میڈیا ٹرائل کو منیج کرنا محال ہو جائے گا اور سیاسی ابلاغ اس سے مکمل جڑا ہو گا۔ ٹرائل کے لئے مواد تو خود میڈیا نے ہی فراہم کرنا ہے لیکن اس کے متوازی پاکستانی عوام الناس کے بنیادی حقوق کی نشاندہی اور بازیابی کا دبائو مختلف انداز خصوصاً سٹیزن جرنلزم کے مکمل مثبت اور مطلوب ایجنڈے سے جاری تو رہے گا ثابت شدہ پاپولر اپوزیشن نے بھی حصول اقتدار سے ہٹ کر اسے اپنا ایجنڈا بنایا تومکمل عقلی جواز کےساتھ کھول کھول کر بتانا ہو گا کہ صرف قابل عملدرآمد انتخابی پروگرام نہیں، اس پر عملدرآمد کا روڈ میپ بھی جو منتخب حکومت کو ڈلیور ٹو پیپل کے لئے (مرحلہ وار ہی سہی) ٹائم بائونڈ کرے۔ ثابت کرنا ہو گا کہ عوام کے دکھوں کا مداوا جلد اور مکمل نہ بھی ہوا تو اتنا اختراعی انتخابی پروگرام تو لانا ہو گا کہ تازہ اوربڑے مین ڈیٹ کا امکانی اقتدار کا آنے والاہر دن ہفتہ اور ماہ وسال گزر جانے والوں سے بہتر ہوتے جائیں گے۔ انتخابی امیدواروں کا انتخاب اسٹیٹس کو کے روایتی فارمولوں کی بجائے میرٹ اورصرف میرٹ پر کرنا ہو گا اور جن کی کپیسٹی حکومتی اور پارلیمانی نظام کے سیٹ اَپ میں آکر کچھ کرنے کی ہے اس کی کسوٹی (TOR)بنانا پڑے گی، یہ الیکٹ ایبل اور چند خانوادوں کا ’’کھیل‘‘ اب نہیں چلے گا۔ پی ٹی آئی کو پاپولرسپورٹ ایسے ہی نہیں دی جا رہی ریٹرن میں اسے بہت کچھ انتخاب سے پہلے بھی کرکے دکھانا ہے اہل ٹیم مشکوک اور کھوٹوں سے نجات ،قیادت کے گرد حصار کو توڑ کر اہلیت، تازہ ذہنی اور مسائل کے اختراعی حل کے لئے لازم جگہ بنانا پڑے گی۔عوام کے بڑے حصے خان اعظم کی بڑی بڑی غلطیوں کو نظرانداز کر چکے ’’سات خون‘‘ بھی معاف۔ انہوں نے جو جدوجہد مطلوب سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لئے کی ہے، عوام الناس کے بڑے حصے نے اس کا ایوارڈ ان کی توقعات سے بڑھ کر ان کو دیا اور دے رہے ہیں۔عوام ان کے ساتھ ہر نقش کہن خواہ یہ نوآبادیاتی دور کی لیگیسی کا انتظامی ڈھانچہ ہو یا عوام دشمن اور آئین سے متصادم اور تجاوز کرتے ریاستی اداروں کا موروثی راج جوآئین کو مٹانے پر مکمل آمادہ ہیں اس کا ثبوت وہ جلد یا بدیر آنے والے عام انتخاب میں دینے پر مکمل آمادہ اور ضمنی میں دے چکے۔

رہا معاملہ پی ڈی ایم کا تواس نے جس مہم جوئی اور دھما چوکڑی سے متنازعہ آئینی حکومت حاصل کی، اس کا ایک دعویٰ تو دم ہی نہیں توڑ گیا ،یہ ٹوٹ کر مسلسل سیاسی خسارے کا ذریعہ بن گیا اس کی جماعتوں نے تینوں لانگ مارچ بلا کسی حکومتی رکاوٹ کے اشیائے خورونوش اور ایندھن کے بڑھتے نرخ پر نکالے اور دعویدارتھے کہ وہ آتے ہی روز مرہ کی یہ تنگ دستی تو ختم اور کم کریں گے جو کچھ اس حوالے سے عوام پر ’’حکومتی عذاب‘‘ نازل ہوا اور احتجاج پر اسٹیٹس کو کی پیرو کار جماعتوں کی اتحادی حکومت نے جس طرح فسطائیت کو اپنی مکمل ثابت شدہ خود غرض اور خود پرست حکومت کا سہاراپایا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ستائے ہوئے عوام عام انتخابات میں بیلٹ کی طاقت سے اس کا جواب نہ دیں اس کی تصدیق تو تینوں بڑے انتخابات کے نتائج سے ہی ہوئی۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا بیانیہ اس کو گھڑنے والوں کی ذہنیت سے پٹ گیا مقابل متاثرہ عوام اب مطالبات اور مانگنے کے قائل ہی نہیں رہے۔ انتخابی مہمات کے بریانی میلوں میں ووٹ کی عزت اور حکومت میں آکر ان (ووٹرز) سے مکمل بے اعتنائی ہی نہیں بلکہ ٹیکس پہ ٹیکس اور عوام مخالف پالیسیوں کے ظلم نے خان کے برابر ہی عوام کو بیدار کر دیا ۔اب وہ واضح طور پر کچھ مانگنے (دو) کے نہیں بلکہ آئین کے مطابق لینے کی سوچ کو عمل میں ڈھال رہے ہیں ۔ایسی حکومتوں پر اپنے اتحاد کا دبائو اور احتساب ان کا ٹول بن گیا ہے ۔نیب کی ضرورت نہیں رہی ٹیکنالوجی علم و تحقیق، تجزیوں اور اس سے بنتی رائے عامہ اسٹیٹس کو کے لئے وبال جان بنتی صاف نظر آ رہی ہے یہی احتساب انتخابی نتائج کی شکل میں آئے گا۔بڑے بڑے طاقتوروں کو سیاسی ڈھیر کرنا ممکن نہیں ہوگیا ؟ایک ن لیگی بھی بیانیہ سچ ثابت ہو رہا ہے ،روک سکو تو روک لو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)