غیرملکی فنڈنگ کیس، PTI کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

December 20, 2022

—فائل فوٹو

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ کر لیا۔

الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن نے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل انور منصور الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

تحریکِ انصاف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ فیئر ٹرائل کیا جائے، دفاع میرا حق ہے، نوٹس ملنے کے بعد فیئر ٹرائل ملنا چاہیے۔

ممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ کیس پہلے اسکروٹنی کمیٹی میں چلا پھر کمیشن میں اس کی سماعت ہوئی۔

انور منصور نے کہا کہ سماعت اسکروٹنی کمیٹی رپورٹ پر ہوئی تھی، یہ کمیٹی سپریم کورٹ کی ہدایت پر بنی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اسکروٹنی کمیٹی سپریم کورٹ کے حکم پر بنی، کمیشن نے نہیں بنائی، آپ تو کہہ رہے ہیں کہ اسکروٹنی کمیٹی علیحدہ ہے اور کمیشن کی سماعت الگ ہے، کیس تو بنا ہوا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ گواہان کی جرح اہم حصہ ہے، جس کے بغیر فیئر فیصلے تک نہیں پہنچا جا سکا، بینک افسران بتائیں اکاؤنٹ کی اسکروٹنی کیسے کی، اب مجھے ان سے جرح کرنی ہے، اسٹیٹ بینک سے کیسے اکاؤنٹ آئے، رائٹ آف ہیئرنگ پہلے نہیں تھی وہ شوکاز کے بعد ہے، آپ شواہد کو کال کر سکتے ہیں، یہ ضروری ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ مجسٹریٹ کے اختیارات الیکشن کمیشن کے پاس آ جاتے ہیں، کمیشن کے پاس کسی کو کال کرنے کا اختیار ہے، گواہان کو سمن کیا جا سکتا ہے۔

ممبر کمیشن نے سوال کیا کہ نوٹس اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہے؟

انور منصور نے جواب دیا کہ یہ فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہے، جو آپ نے دیا وہ آرڈر ہے، فیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آرڈر بھی نہیں رپورٹ ہے۔

ممبر کمیشن نے کہا کہ رول کہتا ہے کہ سماعت کے بعد فنڈ ضبط کیا جائے گا، یہی تو ہو رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے جواب دیا کہ میرا کہنا ہے کہ نوٹس ہی غیر قانونی ہے۔

PTI کے وکیل نے اعتراض اٹھا دیا

اس سے قبل کارروائی کے دوران پی ٹی آئی کے وکیلانور منصور نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ نوٹس الیکشن کمیشن نے نہیں سیکریٹری نے 5 اگست کو پولیٹیکل پارٹی ایکٹ کے رول 6 کے تحت جاری کیا، نوٹس میں نہیں لکھا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر جاری کیا گیا، نوٹس الیکشن کمیشن کو جاری کرنا چاہیے، سیکریٹری کے پاس اس کے اجراء کی اتھارٹی نہیں۔

انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کسی بھی صورتِ حال میں کسی کو بھی اپنی اتھارٹی نہیں دے سکتا، الیکشن کمیشن کے اختیارات کسی ماتحت افسر کو نہیں سونپے جا سکتے۔

چیف الیکشن کمشنر نے سوال کیا کہ کیا کابینہ کے فیصلے پر سب وزیر دستخط کرتے ہیں؟ کابینہ کے فیصلے کے بعد کابینہ کے نہیں سیکریٹری کے دستحط ہوتے ہیں، آپ کہنا چاہتے ہیں کمیشن کے تمام ممبران سائن کریں؟

پی ٹی آئی نے وکیل نے کہا کہ میں نے ایک درخواست بھی دی ہے، گواہان اور شاہدین کو بلانا چاہتا ہوں، آپ نے شوکاز نوٹس دیا ہے جو نیا پراسس ہے، مجھےجرح میں رپورٹ بنانے والوں اور بینک افسران کو کراس ایگزامن کرنا ہے۔

دورانِ سماعتممبر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عمل مکمل ہو چکا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور نے کہا کہ یہ ایک الگ پراسس ہے، وہ پہلے الگ پراسس تھا، آپ نے اسکروٹنی میں شوکاز نہیں دیا تھا، ہم نے صرف اکاؤنٹ کی اسکروٹنی کی، پروسیڈنگ کا شوکاز نوٹس پہلا مرحلہ ہے، ابھی تک صرف معلومات ہے، بس ایک آرڈر ہے۔

وکیل انور منصور نے یہ بھی کہا کہ شوکاز کے بعد لازمی ہو گیا کہ میں جرح کروں، گواہان بھی لاؤں، ان افراد سے بات بھی کروں کہ اسکروٹنی رپورٹ میں کیا ہوا۔