خواتین کو زندہ جلانے کا رجحان سخت ترین قوانین کی ضرورت

June 11, 2016

ارلیمنٹ کے ایوان بالا میں گزشتہ روز چیئرمین سینیٹ اور ارکان کی جانب سے ملک میں لڑکیوں کے زندہ جلائے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف بجا طور پر شدید تشویش اور سخت مذمت کا اظہار کیا گیا اور اس بہیمانہ جرم کے خلاف فوری اور مؤثر قانون سازی پر زورد یا گیا۔چیئرمین سینیٹ نے اس سنگین معاملے کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ پچھلے چند دنوں میں یہ نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ بچیوں کو زندہ جلایا جارہا ہے اور شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ میڈیا پر ایسی کوئی خبر نہ آتی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال نہایت افسوسناک اور اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے لہٰذا اس کے خلاف سخت قانون سازی ہونی چاہیے۔سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے نشان دہی کی کہ آج کی خوفناک خبر یہ ہے کہ ماں نے اپنی بچی کو جلایا ہے اور وہ اس کا اعتراف بھی کررہی ہے۔عنبرین سوات میں اور ماریہ مری میں جلادی گئی جبکہ نزہت تیسری بیٹی ہے جس کو خوفناک انجام تک پہنچایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم سماجی طور پر پسماندگی کی طرف جارہے ہیں،ہمارے ہاں فرد کی نہیں صرف خاندان کی اہمیت ہے،قانون کے مطابق معافی کی صورت میں سارے قاتل باہر آجائیں گے۔اپوزیشن لیڈرنے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ سینٹر صغریٰ امام کی جانب سے ایسے معاملات میں سمجھوتہ نہ کیے جانے سے متعلق جو مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا، دونوں ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش نہ ہونے دیا جائے جس کے نتیجے میں تین بچیوں کے قاتل چھ ماہ بعد باہر ہوں گے۔قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے بھی لڑکیوں کے قتل کے واقعات پر سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے مؤثر قانون سازی کی ضرورت تسلیم کی اورکہا کہ اس بارے میں آگہی مہم شروع نہ کی گئی توا س رجحان کو روکنا مشکل ہوجائے گا۔ارکان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے گویا ہم دور جاہلیت کی طرف لوٹ رہے ہیں، اس وقت بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، اب زندہ جلایا جارہا ہے۔ بلاشبہ تمام پاکستانیوں کے لیے یہ نہایت شرمناک صورت حال ہے۔ اسلام نے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے خاندان اور معاشرے میں بلند مقام اور حقوق و تحفظات عطا کیے ہیں لیکن افسوس کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ہمارے ملک میں آج سات عشروں کے بعد بھی عورتوں کے ساتھ فرسودہ روایات پر مبنی جاہلانہ اور بہیمانہ برتاؤ کسی مؤثر روک ٹوک کے بغیر جاری ہے اور پسند کی شادی کے جرم میں لڑکیوں کو ان کے اپنے عزیز و اقرباء کے ہاتھوں ہر ممکن درندگی و سفاکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتارے جانے کی عملاً کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔انسانی حقوق کمیشن کی گزشتہ اپریل میں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال میں گیارہ سو لڑکیاں اور عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرز عمل کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں جن کی روسے والدین اورسرپرست اس بات کے پابند ہیں کہ لڑکیوں کی شادی میں ان کی پسند اور مرضی کو پوری طرح ملحوظ رکھیں۔ صحیح بخاری کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کی اس شکایت پر اس کے باپ نے جس شخص سے اس کا نکاح کیا ہے وہ اسے پسند نہیں کرتی ، اس نکاح کو ختم کرادیا۔ اس کے باوجود اسلام کے نام پر بنائے جانے والے ملک میں لڑکیوں کے معاملے میں اس غیر اسلامی طرز عمل کے جاری رہنے کا اصل سبب ہمارے معاشرے کی فرسودہ اور جاہلانہ روایات ہیں جنہیں خاندانی عزت اور وقار کے نام پر اب تک قائم رکھا گیا ہے اور سینیٹر اعتزاز احسن کے مطابق خود منتخب ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگ ان روایات کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔تاہم اب ظلم کی انتہا ہوچکی ہے اور وقت آگیا ہے کہ اس شقاوت اور درندگی کومزید کسی تاخیر کے بغیر ختم کیا جائے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ اس انسانیت سوز جرم کے لیے موت کی سزا مقرر کی جائے، اس جرم کو ناقابل معافی اور ناقابل مصالحت قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں فوری طور پر پارلیمنٹ میں قانون سازی کرکے اسے ملک بھر میں نافذ کیا جائے۔