وزیر اعظم کون؟

January 27, 2023

ایک بار علاقے کے معززین میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں، میں نے جواب میں عرض کی کہ میں ان بکھیڑوں میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن آپ لوگوں کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میں خود کو وزیر اعظم بننے کے لئے ذہنی طور پر تیار کر لوں گا۔ آپ بس کمپین شروع کریں چنانچہ معززین علاقہ نے بڑے زوروشور سے یہ کام شروع کر دیا۔ دس پندرہ افراد نے ایک جلوس نکالا اور شہر کے مختلف علاقوں میں نعرے لگاتے رہے ،’’عطاالحق قاسمی کو وزیر اعظم بنائو۔‘‘ انہوں نے چھوٹے سائز کے کچھ اشتہار بھی شائع کئے جن پر میری ایک تصویر لگائی گئی، اس تصویر میں ،میں معزز لگتا تھا اور اس کے نیچے لکھا تھا، ’’ہمارا وزیر اعظم عطا الحق قاسمی‘۔‘میں ایک دن ایک ڈھابے پر چارپائی پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اچانک میری نظر سامنے دیوار پر پڑی جہاں میری وزارت عظمیٰ کا اشتہار چسپاں تھا میرے ساتھ جو لوگ چارپائی پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے میں نے ان میں سے ایک سے کہا بھائی سامنے دیوار پر جو اشتہار لگا ہے وہ ذرا پڑھ کر تو سنائو وہ بولا، میں بھی آپ ہی کی طرح ان پڑھ ہوں۔تب میں نے سوچا کہ ان پڑھوں کے ملک میں اشتہار بازی کا کوئی فائدہ نہیں!

یہ سوچ کر میں نے معززین علاقہ میں سے سب سے معزز شخص جس کا نام مجید تھا اور لوگ پیار سے اسے ماجھا ساجھا کہتے تھے کو فون کیا اس نے کہا میں تندور میں روٹیاں لگا رہا ہوں گاہکوں کا رش ہے میں ایک گھنٹے تک فارغ ہو کر آتا ہوں اس سے پہلے میرے بچپن کے دوست راشد نے بتایا کہ اے پاگل شخص وزیر اعظم ایسے نہیں بنا جاتا اس کے لئے امریکہ کے صدر کی منظوری لینا پڑتی ہے نیز اس منظوری سے پہلے تمہیںکسی بڑی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا اور کامیاب ہونا ہو گا۔ میں نے راشد سے کہا کہ تم نے تو بہت لمبا راستہ بتایا ہے کوئی شارٹ کٹ بتائو بولا شارٹ کٹ بھی ہے نہ کمپین چلانا پڑے گی نہ الیکشن میں کامیاب ہونا ہو گا۔ میںنے پوچھا وہ کیسے؟

اس نے کہا امریکہ کا ٹکٹ کٹائو وہاں اپنے دوستوں خواجہ اشرف اور راحیل ڈار کے ذریعے واشنگٹن کے مؤثر حلقوں میں اپنی جگہ بنائو ۔میں نے پوچھا اس سے کیا ہو گا؟ بولا تمہیں یاد نہیں امریکہ میں 35برس سے مقیم معین قریشی کا راتوں رات پاکستانی پاسپورٹ اورشناختی کارڈ بنایا گیا اور جب اس نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تو وہ پاکستان کا وزیراعظم تھا ۔میں نے پورے تحمل سے راشد کی بات سنی اور دلی جذبات پر قابو پاتے ہوئے بڑی نرمی سے کہا ’’یار سیدھی طرح کہو کہ تم مجھے وزیر اعظم دیکھنا نہیں چاہتے ۔‘‘اس سے مایوس ہو کر میں ایک سیاسی پارٹی کے عہدیدار سے ملا اس بار میں نے معززین علاقہ سے مشورہ نہیں کیا کہ جان گیا تھا وہ اتنے ہی معزز ہیں جتنا معزز میں ہوں ۔اس سے عرض کی کہ جب الیکشن کی رزم آرائی ہوتو آپ نے مجھے اپنی پارٹی کا ٹکٹ دلانا ہے۔ اس نے پوچھا تمہیں یقین ہے کہ الیکشن ہوں گے میں نے عرض کی جناب میں پاکستان کی سیاست کے نشیب وفراز سے واقف ہوں الیکشن ضرور ہوں گے مگر پتہ نہیں کب ہوں گے ۔پارٹی رہنما نے پوچھا اگر آپ کو ٹکٹ دی جائے تو کون سا علاقہ ایسا ہے جہاں سے آپ کی جیت یقینی ہے ۔میں نے کہا بھونڈ پورے کا بچہ بچہ مجھے ووٹ دے گا ۔یہ پارٹی لیڈر مجھے بہت واہیات لگا جب اس نے کہا بچوں کوتو ووٹ کا حق ہی نہیں ۔پھر بولا چلیں چھوڑیں آپ یہ بتائیں کہ پارٹی کے لئے کتنے کروڑ روپے ڈونیٹ کر سکتے ہیں؟ مجھے اس کے سوال کی سمجھ نہیں آئی چنانچہ میں نے پوچھا سر ایک کروڑ میں کتنے سینکڑوں ہوتے ہیں؟ یہ سن کر اس نے بہت بے ہودہ طریقے سے اپنے گھر سے نکل جانے کو کہا۔

میں اس رات چارپائی پر لیٹا سخت آزردہ تھا مجھے خواب آیا کہ مجھے وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے اور میری حلف برداری ہو رہی ہے ۔پھر میری آنکھ کھل گئی اور خوش اتنا کہ زمین پر میرے پائوں نہیں ٹکتے تھے میں یہ سوچ کر فرحاں و شاداں تھا کہ اس وقت ایک پارٹی کے چار پانچ ایم این اے اپنے لیڈر کی جگہ خود وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور میں یہ سوچ کر خوشی سے پاگل ہو رہا ہوں کہ اب میں بھی ان خواب دیکھنے والے سرکردہ لوگوں میں شامل ہوں۔

اور اب آخر میں جلیل عالیؔ کی ایک غزل

دراز سلسلہ کارِ فضول کا نہ کیا

مکالمہ نہ چلا تو مناظرہ نہ کیا

کسی خوشی پہ بھی بھولے نہ عجز و شکر کے حرف

فکسی بھی رنج کو شرمندۂ گلہ نہ کیا

جہاں جہاں سے بھی گزرا گلاب کِھلتے گئے

ہوا کے دوش پہ اک شعر کیا روانہ کیا

ہر انتہا سے ورا ہے بہت مقامِ الٰہ

افق افق تجھے چاہا مگر خدا نہ کیا

تھما دیا گیا کشکول حکمرانوں کو

ہمارا فقر ہمارے لئے خزانہ کیا

کٹی جواز تراشی میں زندگی ساری

خود اپنے ساتھ بھی سچا معاملہ نہ کیا

لگا کے خود کو گلے کُھل کے رو لیے عالی

کسی نے پیش ہمیں جب نہ اپنا شانہ کیا