کے پی کے دو سو گھروں کو کون دیکھے گا؟

February 09, 2023

بےنظیر بھٹو جب پہلی دفعہ وزیراعظم بنیں تو جتنے لوگ بھٹو صاحب کے زمانے میں وزیر تھے، وہ سبھی ’’انکلز‘‘ اپنے ہاتھ میں مشوروں کی پوٹلیاں لئے تشریف لاتے اور ہمیشہ یہ کہہ کر بات شروع کرتے کہ تم اس عہدے پر نئی ہو، یوں کچھ ہی ہفتوں میں بی بی ان تمام ’’انکلز‘‘ سے بے زار ہو گئیں۔ پھر انہوں نے آزادانہ طور پر سیاست کی اور کیا کچھ نہ کیا۔ یہ بات ماضی کا حصہ ہے۔ مجھے یہ صورت حال اسلئے یاد آئی کہ جس دن سے مریم نواز شریف کو پارٹی میں اہم عہدہ، ان کے اپنے والد نے دیا ہے، ان کے بہت سے ’’انکلز‘‘ دل ہی دل میں بڑبڑا رہے ہیں اور کچھ نے تو برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ مجھے یہ حالات دیکھتے ہوئے آج سے55 برس پہلے کا وہ زمانہ یاد آگیا جب مجھے لاہور میں ایک ادارے کی سربراہی دی گئی تو ایک جماعت کے رُکن نے درخواست لکھ کر وزارت کو بھجوائی تھی کہ ’’ہم اتنے بے غیرت نہیں کہ ایک خاتون کے ماتحت کام کریں۔‘‘آج ساٹھ برس بعد یہ واقعہ یاد نہیں آیا بلکہ آج کے دور میں وزارت مذہبی امور نے ڈائریکٹر حج رکھنے کیلئے دو دفعہ ٹیسٹ دینے کا کہا اور ہر دو دفعہ ایک خاتون کے نمبر سب سے زیادہ نکلے مگر اس نے سر پر دوپٹہ نہیں اوڑھا ہوا تھا۔ محکمے کے سربراہ معترض ہوئے، یعنی قابلیت کے مقابلے میں سر ڈھانکنے کو پاکستان میں اہمیت دی گئی۔ خود سعودی عرب میں بھی مساوی منصب پر ایک خاتون کام کر رہی ہے۔پورے ملک میں لوکل سطح پر، صوبائی اور قومی سطح پر انتخابات ہونے والے ہیں۔ ذرا گزشتہ ادوار کا جائزہ لیا جائے تو مقامی کونسلوں کی سطح پر صرف مشرف کے دور میں خواتین کو بلدیاتی اداروں میں 33 فیصد شراکت داری دی گئی اور اس کے بعد صائب موقع ہی نہیں ملا۔فافن نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کے دوتہائی شہر کی خواتین کو کوئی موقع ہی نہیں دیا گیا بلکہ تجزیئے میں معلوم ہوتا ہے کہ چنیدہ شہروں کے ارکان کے توسط سےکسی کی بھابھی تو کسی کی بہن یا والدہ۔ صرف رشتوں کے توسط سے ارکان لگائی گئیں،جنہیں منتخب بھی کہا گیا۔ اب انسانی حقوق کمیشن سے لیکر عالمی اداروں کی جانب سےاصرار ہے کہ چھوٹے ضلعوں کی قابل خواتین کو آگے لایا جائے۔ گزشتہ 15برس میںسی ایس ایس کے نتائج سے واضح ہوا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین نہ صرف زیادہ کامیاب ہوئیں بلکہ اس وقت پولیس سے لے کرتمام محکموں میں خواتین زیادہ اور اہم عہدوں پر تعینات ہیں۔ اس کے باوجود مذہبی امور میں عجیب سرشت کے لوگ متمکن ہیں۔فی الوقت سات لاکھ سے زائد لوگ نوکری کی تلاش میں ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ اب بھی پولیس میں 300پوسٹوں کے لئے لاکھوں لوگوں نے اپلائی کیا تھاجن میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی شامل تھے۔ ان کے منتخب نہ ہونے کی وجوہات میں ان کا صرف بہتر ڈگری ہولڈر ہونا ہی نہیں۔ حقیقت میں بظاہر ڈگری آپ کو کسی عہدہ کے قابل نہیں بناتی۔ آپ کی ذہنی اہلیت اور خود اعتمادی بھی پچاس فی صد، نوکری کو بجالانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ سول سروس میں بہت سے لوگ آئے اور بہت گئے مگر کوئی کوئی قدرت اللہ شہاب، الطاف گوہر اور کوئی بیگم اختر ریاض الدین اور کوئی گلزار بائی نکلتی ہے۔

خواتین کے ساتھ پہلے بھی ایف نائن پارک میں زیادتی ہوئی ہے اور اب تو خیر سے کسی گارڈ نے یہ تماشہ لگایا ہے۔ ویسے تو غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ کہیں کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ویمن ڈویژن اور ویمن احتساب کمشنر کون ہیں اور کیا کر رہی ہیں؟ کبھی اس بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوا۔دنیا بھر میں گزشتہ تین سو برسوں میں کون کون سی خواتین آئیں اور کیا کرکے تاریخ میں اپنا نام لکھوا گئیں۔نعیم مرزا صاحب نے اپنی عمر لگا کرتحقیق کرنے کے بعد یہ کتاب مرتب کی ہے۔ ہماری خواتین سے متعلق اداروں کو یہ کتاب خرید کر ساری دنیا کی لائبریریوں میں بھیجنی چاہئے تھی۔پاکستان میں خاور ممتاز اور فریدہ شیر نے 30برس ہوئے ایک کتاب خواتین کی جدوجہد سے متعلق مرتب کی تھی، دنیا بھر کے پیپرز میں اس کے حوالے دیئے جا رہے ہیں۔ 30برس ہوئے،زاہدہ حنا نے ایک ادبی تحقیقی کتاب بعنوان ’’زندگی کا زنداں‘‘ شائع کی تھی وہ بھی آصف فرخی نے شائع کی۔ اب وہ شخص نہیں رہا تو اس کے زمانے کی کتابیں بھی بازار میں نہیں ہیں۔ پاکستان میں یوں تو طالبان کے ہاتھوں روز کسی نہ کسی گھر کا چراغ بجھ جاتا ہے مگر یہ پشاور میںسو سے زائد نمازیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانااور وہ بھی عین نماز کے دوران، بار بار یاد دلاتا ہے کہ ابھی تک ہمارے غریب گھرانوں میں ایک کماتا اور دس کھاتے ہیں۔ اس مہنگائی کے زمانے میںدہشت گردی سے اجڑنے والےسینکڑوں گھروں کی روٹی روزی اور بچوں کی کفالت کون کرے گا؟ حکومت وقت تو لاکھ دو لاکھ روپے دینے کا کہہ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے مگر شر پسندوں کے ہاتھوں اجڑے گھروں میں ہر خاندان کے ایک فرد اور ایک خاتون کو نوکری کے علاوہ بچوں کی تعلیم کو اولیت دی جائے۔ جو نوبیاہتا اجڑی ہیں، ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کو گھر کے بڑے یوں نہ ہاتھ پھیلائیں کہ کسی شادی شدہ فرد سے اس کو باندھ دیں، زمانہ بہت آگے بڑھ گیا۔ ایسی بچیوں کا مستقبل ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ان بچیوں کو اسکولوں میں نوکری دلوانا، پختون خوا حکومت کا فرض ہے۔

عورتوں اور بچیوں کی عزت کی بات ہو رہی ہے تو مجھے ٹیرین، جسے جمائمہ بڑی عزت اور فخر کے ساتھ بیٹی بنا کر پال رہی ہے،اس کا باپ مگر اسے تسلیم کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ ساری دنیاحیرت میں ہے کہ ایسے بھی باپ ہوتے ہیں۔ یوں تو سیاست میں بڑی جواں مردی دکھائی جا رہی ہے۔