خان صاحب آپ بھی کھجوریں بھجوا دیں !

June 16, 2016

شیخو جس کا دل رانجھے‘ نصیب ہیر اور دماغ کیدو کا ‘ جو عمر کے اس حصے میں کہ جہاں بندہ بُرا سوچ تو سکے مگر بُرا کر نہ سکے ‘جسکی جسامت ایسی کہ افواہ کی طرح پھیلا ہوا ‘جتنی دیر اسے مکمل دیکھنے میںلگے اُتنی دیر میں بندہ مزارِ قائد دیکھ لے ،جو تجربہ کار ایسا کہ نرس دیکھ کربتا دے کہ مریض ٹھیک ہونے میں کتنی دیر لگائے گا ‘ جو اکثر نظروالی عینک لگائے اور عینک لگی ہو تو لگے کہ عینک نہیں نظر لگی ہوئی‘ جو چل رہا ہو تو لگے کہ کسی کا تعاقب کر رہا ہے یا اسکا تعاقب ہو رہا ہے‘ جو گفتار میں ترنم اور کردار میں ملکہ ترنم ‘ جسکا ہر وقت کچھ نہ کچھ خراب رہے کبھی صحت تو کبھی صحبت‘ جو سیلف میڈ انسان مطلب خود کو خود ہی بگاڑا کبھی کسی اور سے مددنہ لی ‘ جو عام آدمی کو یوں دیکھے کہ جیسے چھت سے گلی میں جھانک رہا ہو ‘ جس سے ملکر یقین آجائے کہ کچھ لوگ واقعی ’’اسکروڈرائیور‘‘ کی طرح یعنی جب بھی ملیں کچھ پیچ ڈھیلے کر جائیں ‘ جو ایکدن بولا ’’ دھوکے اور کھوتے کا پتا تب چلے جب بند ہ کھا چکا ہو‘‘ جو اپنے محلے دار میاں بیوی کوہر وقت ساتھ ساتھ دیکھ کر ایک روز کہنے لگا ’’ وہ بیوی جو اپنے شوہر کو ساتھ ساتھ لئے پھرے اس بلی کی طرح کہ جو چوہے کو جان سے مارنے کے بعد بھی اسی سے کھیلتی رہے ‘‘ جو ایک شام لاہور اور پھر اندرونِ لاہور کی بات چھڑنے پر بولا ’’ اندرونِ لاہو ر کی کچھ گلیاں تو اتنی تنگ کہ اگر ایک طرف سے عورت اور دوسری طرف سے مرد آرہا ہو تو پھر درمیان میں گنجائش صرف نکاح کی ہی بچتی ہے ‘‘اور جس نے ایک دفعہ پکا سا منہ بنا کرکہہ دیا ’’ اصل پہنچ والا بندہ تو وہ جس کی پہنچ وہاں تک کہ جہاں کھجلی ہورہی ہو ‘ ‘ ۔
پہلے روزے والے دن اسی شیخو سے ملاقات ہوئی تو پوچھا ’’روزہ کیسا جا رہا ہے ‘‘ خشک ہونٹوں پر نیم خشک زبان پھیر کر پھنسی پھنسی آواز میں بولا’’ اپنی حالت تو اس پٹھان جیسی کہ جس نے روزے سے نڈھال ہو کر دوپہر کو وقت گزاری کیلئے ایف ا یم ریڈیو پرکال کی اور جب خاتون میزبان نے علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ خان صاحب کیا سننا پسند کریں گے تو پٹھان بے ا ختیار کہہ اُٹھا ’’باجی ہم کو مغرب کا اذان سنا دو‘‘ میں نے کہا ’’ حضور یہ سوچ کر رمضان کا مہینہ برداشت کر لیں کہ نجانے 11مہینے کون کون آپکو برداشت کرتا رہا ‘‘ ٹھنڈے پانی کی بوتل سے منہ کی ٹکورکر تے ہوئے کہنے لگا ’’ کسی نے سچ ہی کہا کہ سارے دوست ہمدردنہیں کچھ سردرد بھی ہوتے ہیں‘ ‘ اچھا بجٹ تقریرسنی‘ میں نے بات بدلی توجواب مِلا ’’ایک لڑکی نے ملنگ بابا سے کہا ’’ بابا جی دعا کریں میری شادی کسی سمجھدار انسان سے ہو جائے ‘‘ملنگ بابانے کہا ’’بچہ گھر چلی جا کیونکہ کوئی سمجھدار انسان شادی نہیں کرتا‘‘ میں نے کہا کہ اس لطیفے کا بجٹ سے کیا تعلق ‘کر سی سے ٹیک لگا کر بولا ’’ بتانا یہ کہ سمجھدار لوگ بجٹ تقریر یں نہیں سنتے ‘‘ میں نے کہاقبلہ اُدھر پورا ملک بجٹ کے Side Effects کی زد میں او راِدھر یہ شانِ بے نیازی کیوں ؟ ائیر کنڈیشنر کے سامنے او رچھت والے پنکھے کے عین نیچے بھی روزے کی گرمی میں پھنسے شیخو نے ایک ادھوری سی طنزیہ مسکراہٹ پھینک کر کہا ’’ ایک سرائیکی سے پوچھا گیا کہ ’’یہ ہیر رانجھے کاکیا چکر تھا ‘‘ سرائیکی بولا ’’ ہیر رانجھے دی ایڈی غلطی تاں کائی نیئں ،جتنا وارث شاہ ذلیل کیتی کھڑا اے ‘‘ میں نے کہا اب آپکی اس بات کا بجٹ سے کیا لینا دینا،بولا ’’ بتانا یہ کہ حکومتی بجٹ اتنے بھی برُے نہیںہوتے جتنے برُے بنا دیئے جاتے ہیں ‘‘ میں نے کہامحترم آپ نے ہی پچھلے بجٹ کے بعد یہ کہا تھا کہ ’’اتنا تو بیوٹی پارلر والے بے وقوف نہیں بناتے جتنا بجٹ بنانے والے بے وقوف بنا جائیں ‘‘ اور یہ بھی آپ کا ہی فرما ن کہ’’ایسے بجٹ بنانے والی حکومت کو تو آئندہ الیکشن میں ایسے چننا چاہئے کہ جیسے اکبر بادشاہ نے انارکلی کو چُنا‘ یعنی دیوار میں ‘‘ میری باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتا نیم سویا نیم جاگا شیخوکرسی پر سیدھا ہو کر اس بار بولا تو مجھے پتا چل گیا کہ اصل شیخو اسٹارٹ ہو چکا ‘ کہنے لگا ’’ تم حکومتی مکاریوں پر پریشان جبکہ مجھے دکھ اس بات کا کہ ’’ اپنی قوم اُس افسر جیسی ہو گئی کہ جس نے اپنے سیکرٹری کو بلا کرڈانٹتے ہوئے کہا کہ’’ تم لوگوں کو بتاتے پھر رہے ہو کہ میں بے وقوف ہوں‘‘سیکرٹری گھبرا کر بولا’’ سر اللہ کی قسم میں نے کسی کو کچھ نہیں بتایا‘ سب کو یہ پہلے سے ہی معلوم ہے ‘‘، تمہیں بجٹ کے Side Effectsکی پڑی ہوئی جبکہ میں اپنے اُس قومی شعور پر نوحہ کناں کہ جس کا حال اس سردار جیسا کہ جو 19رشتہ داروں کے ہمراہ فلم دیکھنے سینما گھر آیا تو ٹکٹ دینے والا ٹکٹ پکڑاتے ہوئے جب سردارجی سے یہ کہہ بیٹھا ’’سردارجی خیر تو ہے 19رشتہ داروں کو اپنے خرچے پر فلم دکھانے لے آئے ‘‘تو سردار غصے سے بولا ’’ تمہیں پتا ہے کہ میںنے کتنی مشکل سے 19رشتہ دار اکھٹے کئے‘ خبردار آئندہ اگر کسی فلم کے اشتہار پر یہ لکھوایا کہ Eighteen and Above‘‘ ، وہ شیخو جو ایسا گرم ہو چکا کہ اب اس پر پانی ابالا جا سکے ‘بات کرتے کرتے رُکا اور اپنی سانسیں درست کرکے چند لمحوں بعد دوبارہ بولا ’’ماناکہ یہ بات اہم کہ ہماری معیشت بیٹھتی او رروپیہ گرتا جارہا مگر یہ بات زیادہ اہم کہ منتشر اور بے حس ہو چکی قوم روپے پیسے کیلئے ہر روز اتنی گرے کہ جتنا کبھی روپیہ گر کر بھی نہ گرے اور مانا کہ چہرے بدل بدل کر ہمیں جوتے مارنے والے بھی قصور وار مگر ان سے بڑے مجرم وہ جو نہ صرف خوشی خوشی جوتے کھار ہے بلکہ 2کلو خربوزے لیتے وقت تووہ آدھی ریڑھی سونگھ لیں لیکن ملک سونپتے ہوئے اندھے اور بہرے بن جائیں‘‘۔دوستو! اس دن شیخو دو گھنٹے بولا ‘ اس نے اور بھی بہت کچھ کہا اور اگر اسکی سب باتیں جھٹلا بھی دی جائیں تب بھی یہ کڑوا سچ اپنی جگہ کہ ماشاء اللہ ہم زوال کے اُس عروج کو چھوتے ہوئے کہ ایک طرف سر درد کی گولی اور بخار کے ٹیکے کیلئے ترستی اور سستے بازاروں میں رُلتی قوم جبکہ دوسری طرف انگلینڈ میں پیزے برگر کھاتے اور شاپنگیں کرتے قوم کے خدّامِ اعلیٰ ‘ ایک طرف انکم سپورٹ کارڈوں کی کھوج میں بھٹکتے اورصدقے زکوٰۃ کے شارٹ کٹ ڈھونڈتے عوام جبکہ دوسری طرف ہائیڈ پارکوں میںواکیں کرتے اوراسپتال کے بستروں سے ویڈیو لنک حکمرانیاں فرماتے عوامی حکمران اور ایک طرف عمر بھر ملک وقوم کے دکھ درد بانٹتا فیل گردوں کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ موت کی طرف بڑھتا عبدالستار ایدھی اب گمنامی کے بستر پر اور دوسر ی طرف70ارب ڈالر کے مقروض ملک کے بادشاہ سلامت کے مہنگے علاج کی لمحہ بہ لمحہ خبریں اور صدقوں اور دعاؤں کے فوٹو شوٹ ‘ کبھی کسی وزیر یا مشیر کو نقلی منہ بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ و ہ 2013سے بیمار اصلی خادمِ اعلیٰ عبدالستار ایدھی کیلئے بھی بکروں کے صدقے یا دعاؤں کا ایک آدھ فوٹوشوٹ ہی کروادیتا اور کبھی کسی ممنون حسین کو یہ خیال نہ آیا کہ وہ اس جینوئن خادمِ پاکستان کیلئے بھی ایک آدھ رسمی دعائیہ تقریب ہی رکھ لیتا ‘‘۔
مگریہی ہماری سیاست اور جو کچھ ہماری سیاست میں ہو رہا ‘ وہ صرف ہماری سیاست میں ہی ہوسکے ‘ابھی 3دن پہلے آپ سب پرویز رشید صاحب کو خورشیدشاہ صاحب کے گھٹنے چھوتے دیکھ چکے ‘ یہ میثاقِ جمہوریت تھا‘ این آر او کی تجدید تھی یا علی بابا چالیس چوروں کو سٹرکوں پر گھسیٹنے کی ابتداء ‘ یہ فیصلہ تو آپکا‘ میں تو نہ چاہتے ہوئے بھی یہاں گھٹنے مبارک چھونے کی سعادت کے بعد پرویز رشید کے دو تاریخی جملے دہرانے پر مجبور‘ پرویز صاحب نے اس پرُ مسرت موقع پر فرمایا ’’میں شاہ صاحب کی بھیجی گئی کھجوروں کا شکریہ ادا کرنے گیا تھا او رآئندہ اس سے بھی زیادہ جھک کر ملوں گا ‘ اب پہلی بات تویہ کہ خورشید شاہ نے تو پچھلے سال بھی کھجوریں بھجوائی تھیں ‘کیا پچھلے سال اس لئے اس طرح کا شکریہ ادا نہ کیا گیا کہ پچھلے سال پانامہ لیکس نہیں تھااور دوسری بات یہ کہ پرویز صاحب اس سے زیادہ اور کتنا جھکیں گے کیونکہ جہاں تک مجھے معلوم اس سے زیادہ جھکنے کو کم ازکم جھکنا نہیں کہتے ‘اور دوستو نجانے یہاں کیوں دل یہ بھی کر رہا کہ جتنی جلد ہو سکے اب عمران خان بھی پرویز رشید کو کھجوریں بھجوا دیں۔