آپ کا صفحہ: تحریر پڑھنے کو مل رہی ہے ...

March 26, 2023

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

تحریر پڑھنے کو مل رہی ہے

سالانہ ایڈیشن کے بقایا مضامین آج کے جریدے میں موجود تھے۔ پارٹ وَن کی طرح پارٹ ٹُو بھی نہایت عُمدہ انداز سے مرتّب کیا گیا۔ سرورق کی ماڈل کا انتخاب بھی شان دار تھا اور ہمیں تو اصل خُوشی اس بات کی ہے کہ آپ کی خُوب صُورت تحریر دوبارہ پڑھنے کو مل رہی ہے۔ نئی کتابوں پر اختر سعیدی کے تبصرے بہت اچھے ہوتے ہیں، خاص طور پر اس بار ناول ’’کانچ کا زنداں‘‘ پر تبصرہ بہت ہی پسند آیا اور ہاں، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ کے جوابات کا بھی جواب نہیں ہوتا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: جی ہاں، ہمیں بھی یہی لگتا ہے کہ یہ آپ لوگوں کی دُعائوں (یا بددُعائوں) ہی کا نتیجہ ہے۔

دوبارہ شائع فرما دیں

آپ سے گزارش ہے کہ ہر ہفتے کتابوں پر تبصرے کے قواعد و ضوابط بھی اُسی صفحے پر درج کیا کریں تاکہ کتابیں ارسال کرنے والوں کو آسانی ہوسکے اور شان الحق حقی سے متعلق جو مضمون شائع ہوا تھا، وہ ذرا دوبارہ شائع فرمادیں تو نوازش ہوگی۔ (سہیل نیّر، حیدرآباد، سندھ)

ج:نئی کتابوں سے متعلق قواعد و ضوابط وقتاً فوقتاً ایک اعلان کی صُورت شائع کیے ہی جاتے ہیں۔ اور آپ کی دوسری فرمائش تو خاصی فضول ہےکہ ایک شائع شدہ مضمون کو بھلا دوبارہ کیوں کر شائع کیا جاسکتا ہے۔

ایک گزارش، ایک شکایت

میگزین کا صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ واقعتاً اسم بامسمّٰی ہے۔ محمود میاں نجمی کا اندازِ تحریر نہایت قابلِ تحسین ہے۔ مَیں نے ایک سال قبل بھی ایک گزارش کی تھی کہ ہم لوگ کچھ ہستیوں سے متعلق بہت کم علم (بلکہ نہ ہونے کے برابر) رکھتے ہیں۔ حضرت خضر علیہ السلام، حضرت لقمان اور ذوالقرنین بادشاہ، تو براہِ مہربانی اگر اِن پر تفصیلاً کچھ تحریر کریں، تو بڑی عنایت ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ چند سال پہلے بھی نشان دہی کی گئی تھی اور پھر اس عمل کی درستی بھی ہوئی، مگر اب دوبارہ وہی مشق شروع کردی گئی ہے۔

یعنی خواتین کی تصاویر اِس صفحے کے پیچھے یا سامنے شائع کی جارہی ہیں، جس پر ’’سرچشمہ ٔہدایت‘‘ کے مضامین ہوتے ہیں۔ آپ بے شک تصاویر صفحہ اول پر شائع کریں، مگر ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کا صفحہ 3،4 ،5 یا 6،7 پر لگا دیں، کیوں کہ یہ مضامین عموماً محفوظ کیے جاتے ہیں اور ان کے ساتھ تصاویر اچھی نہیں لگتیں۔ (میجر (ر) صفدر حسین کاظمی، 16لین1 ، راجا اسلم کالونی، چکلالہ، راول پنڈی)

ج: صفدر صاحب، بات یہ ہے کہ ہمارے قارئین کی تعداد لاکھوں بلکہ اب ہمارےنیٹ ایڈیشن کے سبب تو کروڑوں میں ہے، تو ہر ایک کو مطمئن اور خوش رکھنا تو سمجھیں ناممکنات میں سے ہے۔ آپ کو سرورق کے پیچھے صفحے کی اشاعت پر اعتراض ہے، جب کہ بےشمارقارئین جریدے کاآغاز ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے نہ کرنے پر معترض ہوتے ہیں اور پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستانی قوم کو ہمیشہ مسائل کا بہت آسان، اپنی مرضی کے مطابق یا دوسروں پر تھوپا ہوا حل ہی درکار ہوتا ہے، حالاں کہ اگر آپ خُود ذرا سی زحمت فرمائیں، صفحے کو محفوظ کرنے سے قبل پیچھے ایک سادہ کاغذ پیسٹ کرلیں، تو بھلا اِس میں کیا قباحت ہے۔ ہمیں خُود بھی قطعاً اچھا نہیں لگتا کہ لوگ ہمارے کسی عمل پر اعتراض کریں اور ہم وہی دہراتے رہیں، اِلّا یہ کہ ہماری کوئی حد درجہ مجبوری نہ ہو۔

بروقت شائع کردیں

ماشاء اللہ خُوب، بہت خُوب، سالِ نو ایڈیشن کے ’’حرفِ آغاز‘‘ کا آغاز رحمان فارس کے خُوب صورت اشعار سے کیا گیا۔ (یہ میرے بھی پسندیدہ شاعر ہیں) اور اختتام بھی پھر اُن ہی کے شعر پر ہوا۔ ؎ ہر پھیلی ہتھیلی کی دُعائوں کو دُعائیں… ہر پائوں کو منزل کی طرف چال مبارک۔ اگر اتنی اچھی تحریر کی داد نہ دی جائے، تو بڑی بددیانتی ہوگی کہ ایک صفحے میں پورے عالم کے حالات و واقعات کو جس طرح یک جا کیا گیا، اِس سے ایک بات تو عیاں ہوگئی کہ بلاشبہ رائٹ اَپ پر بہت ہی محنت کی گئی۔ شاید ہی سالِ رفتہ کی کوئی اہم بات رہ گئی ہو۔

بھئی، مان گئے، آپ کی صلاحیتوں، قلم کی روانی، تحریر کی جولانی، حرفِ آغاز کی سچّی کہانی اور پُورے عالم کی حقیقی ترجمانی کو۔ ساتھ یہ بھی لکھا کہ ’’کوئی کمی، کوتاہی، غلطی نگاہ سے گزرے، تو اصلاح اور رہنمائی فرما دیجیے گا۔‘‘ تو یہ بھی ایک سچّے اور کھرے لکھاری کی خاص پہچان ہے کہ اپنا بہترین پیش کرنے کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ ایک گزارش بھی کرنی تھی کہ میرے ناقابلِ فراموش کے دو واقعات ہنوز اشاعت سے محروم ہیں، تو اگر اُن سے متعلق آگاہ کردیں کہ کیا قابلِ اشاعت ہیں یا نہیں، تو عنایت ہوگی۔

ابھی سال نامے سے متعلق خط پوسٹ بھی نہیں کیا تھا کہ دوسرا جریدہ موصول ہوگیا۔ حسبِ روایت ’’آپ کا صفحہ‘‘ دیکھا، تو اپنے خط پر نظر پڑی، بےحد شکریہ۔ یقین کریں جتنی عزت اور حوصلہ افزائی آپ کے میگزین کی جانب سے مل ہی ہے، سیروں خون بڑھ گیا ہے۔ رہی بات میری نگارشات کی طوالت کی، تو مَیں صدقِ دل سے اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اظہارِ خیال کرتے ہوئے مَیں یہ مارجن پہلے سے رکھتا ہوں کہ ایڈیٹنگ کے وقت خط ضرور مختصر ہوجائے گا، تو پھر اختصار سے کام کیوں کر لیا جائے، لیکن اگر ناگوارِ خاطر گزر رہا ہے تو آئندہ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے ’’دائرہ اختصار‘‘ کا خیال رکھا جائے گا۔

دوسری بات یہ کہ کسی قاری نے پوائنٹ آئوٹ کیا تھا کہ ’’ناقابل فراموش‘‘ باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتا، تو جواباً آپ نےفرمایا کہ’’معیاری تحریریں ہی زیادہ موصول نہیں ہوتیں۔‘‘ اِس ضمن میں عرض یہ ہے کہ جو معیاری تحریریں موصول ہوتی ہیں، کم از کم اُنہیں ہی بروقت شائع کردیا کریں۔ ویسے حالیہ شمارے میں سب سے حیرت انگیز بات شری مُرلی جی کا شکوہ تھی۔ میرے خیال میں تو جس تسلسل اور تواتر سے اُن کے خطوط شائع ہوتے ہیں، شاید ہی کسی کے ہوتے ہوں۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشن اقبال، کراچی)

ج: اگر لکھاری خود اختصار سے کام لے، تو کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ غیر ضروری کاٹ چھانٹ میں وقت برباد کرے۔ ناقابلِ فراموش کے واقعات بروقت ہی شائع کیے جارہے ہیں۔ آپ کی جو تحریریں قابلِ اشاعت ہوں گی، باری آنے پر شائع ہوجائیں گی، بصورتِ دیگر فہرست میں نام ملاحظہ کرلیجیے گا۔

ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا

یقین کریں، ’’سنڈے میگزین‘‘ کی محفل سجی دیکھ کر دل باغ باغ ہوتا ہے، لیکن جب اِس محفل میں اپنا چہرہ نظر نہیں آتا، تو ہم شیشہ دیکھ کے کہتے ہیں ’’ہنوذ دلّی دور است۔‘‘ بہرحال، ہماری طرف سے دوسرے معزّزین کو بہت شاباشی۔ پتا نہیں، ہمارے لیے انگور کب تک کھٹے رہیں گے۔ بہت ممکن ہے، آپ کہتی ہوں، ’’ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا‘‘۔ ویسے سچ کہیں، تو کئی خطوط پڑھ کے لگتا ہے کہ بھلا اِن میں ایسی کون سی بات تھی، جو شائع کیے گئے۔ جریدے کی بات کروں، تو معلومات کا ایک خزانہ ہے گویا۔ محمود میاں نجمی کی اللہ عُمر دراز کرے، وہ تو ایک تبلیغی مِشن پر ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی بھی اہم موضوعات پر قلم آرائی فرماتی ہیں۔ رائو شاہد اقبال کی تحریروں کا تو کوئی مول ہی نہیں، اور منور مرزا کے حالاتِ حاضرہ کے بھی کیا ہی کہنے۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ سرور شہید، ضلع کوٹ ادّو)

ج: محترمہ، کہیں سے محاوروں کی کوئی کتاب ہاتھ لگ گئی تھی کیا۔ ایک دو تو بالکل ہی بے تُکے تھے۔ سو ایڈٹ کردیے اور آپ کے تو متعدّد خطوط شائع ہوچُکے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا راگ مالا سُنائی ہے آپ نے۔ رہی اشاعتِ خطوط کی بات، تو اس صفحے کے لیے کوئی خاص میرٹ نہیں ہے، ہر ایک ہی کا خط چھاپ دیا جاتا ہے، سوائے اُن کے کہ جو تہذیب و اخلاقیات سے بالکل ہی عاری ہوں۔

طویل ترین چِٹھی…

شمارہ موصول ہوا، سرورق پر دو ماڈلز سولہ سنگھار کیے براجمان تھیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی ’’مدینہ منوّرہ، عہدِ قدیم سے دَورِ جدید تک‘‘ کی نویں قسط لائے۔ پڑھ کے معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ بلاشبہ ریاستِ مدینہ کے قیام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت محنت، جدوجہد اور صحابہؓ کی لازوال قربانیاں شامل تھیں اور وہ نظامِ مملکت مسلمانوں کے لیے قیامت تک مشعلِ راہ ہے۔ ایک ہمارے یُوٹرن خان نے ریاستِ مدینہ کا نام لے کر عوام کو سخت گُم راہ کیا اور اقتدار کے مزے لُوٹ کر مُلک کا بیڑہ غرق کردیا۔ آج عوام کا منہگائی سے بُرا حال ہے۔

کہاں ہم ساٹھ کی دہائی میں ایشیائی مُلکوں کے لیے رول ماڈل تھے اور کہاں ہمارے حُکم رانوں کی نااہلی، عوام کی بے عملی، کرپشن، خود غرضی نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے ’’یوم یک جہتیٔ کشمیر‘‘ سے متعلق انکشاف کیا کہ یہ قاضی حسین احمد مرحوم کا صدقۂ جاریہ ہے، پڑھ کر بہت حیرت ہوئی۔ اللہ پاک قاضی صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال ’’یوم یک جہتیٔ کشمیر‘‘ کے سلسلے میں رقم طراز تھے کہ عالمی برادری کے ایوانوں میں آواز پہنچانے کے لیے1975ء جیسی ہڑتال کی جائے، مگر کیا فائدہ ہوگا، بھینس کے آگے بین بجانے کا۔

’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں اخترالاسلام صدیقی پاکستان کی تاریخ و ثقافت پر مبنی یادگاری ڈاک ٹکٹوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا نے پاک، بھارت تعلقات میں متحدہ عرب امارات کے ممکنہ کردار پر تبصرہ کیا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر سادہ، شرمیلی، منجھی ہوئی اداکارہ شائستہ صنم سے کچھ سچّی، کھری باتیں اُگلوا رہے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر عبدالعزیز میمن نے مُوذی مرض سرطان سے بچائو کی تدابیر گوش گزار کیں۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر احمد حسن رانجھا دہلی یاترا کا احوال سُنا رہےہیں اور خُوب سُنا رہے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں صبور فاطمہ کردار و اخلاق کا غائبانہ تعارف کروا رہی تھیں۔ حکیم حارث نسیم انار کی افادیت بیان کررہے تھے اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا اظہار تھے اور اب بات، اپنے باغ و بہار صفحے کی۔ اس بار تو ڈاکٹر تسنیم سلیم اعزازی ہی نہیں، طویل ترین چٹھی کی بھی حق دار ٹھہریں۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: آپ بھی کسی چٹھی کو طویل ترین کہہ سکتے ہیں۔ بخدا، آپ کا ایک خط ایڈٹ کرتے کرتے صحیح معنوں میں ہمارے ہاتھ دُکھ جاتے ہیں۔ غالباً ہر زبان ہی میں آپ کو سمجھا کے دیکھ لیا ہے، حرام ہے، جو آپ کے کان پر جُوں بھی رینگ جائے۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی ٹیم کو بمع اہل و عیال خوش باش رکھے، زندگی میں آسانیاں عطا فرمائے۔ آپ کی خُوب صُورت الفاظ و اشعار سے مرصّع تحریر اور قارئین کے خطوط کی مناسبت سے برجستہ جوابات تو بہت متاثر کرتے ہی تھے، لیکن سالِ نو ایڈیشن کے ’’حرفِ آغاز‘‘ میں گزشتہ سال پیش آنے والے مُلکی و بین الاقوامی معاملات و مسائل پر آپ کے نہایت اختصار سے لکھے گئے، ایک غیر جانب دارانہ اداریے نے تو حالات و واقعات پر آپ کی گہری نظر اور گرفت کا بھی قائل کردیا۔ میرے پہلے خط کی اشاعت اور آپ کی تعریف سے حوصلہ افزائی ہوئی، تو نہ صرف ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے لیے لکھنے کا آغاز کردیا بلکہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے کے لیے بھی ایک حقیقی واقعہ قلم بند کر کے میگزین کے متعلقہ شعبے کو ارسال کیا ہے۔ قوی امید ہے کہ ’’ناقابلِ اشاعت‘‘ کے چوکھٹے میں اس کا عنوان سنہرے الفاظ سے لکھا جائے گا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت شائع ہونے والے اکثر و بیش تر موضوعات پر اختلاف کی کافی گنجائش ہوتی ہے۔

ضروری نہیں کہ تمام قارئین لکھاری کے خیالات یا نظریات سے متفّق ہوں۔ بعض اوقات مسائل کے حل کے لیے اربابِ اختیار کے غلط اقدامات کے باعث اُن کے واضح مضر اثرات کا ایک عام شہری کو بھی یقین ہوتا ہے، مگر جب کوئی نام وَر دانش مند ان غلط اقدامات کی افادیت یا تائید میں درجنوں صفحے کالےکرڈالے، تو ایسے شخص کا حکمت و بصیرت سے تہی دامن ہونے کا تاثر ذہن میں راسخ ہونا بےجا نہ ہوگا۔ اِس کی ایک مثال 28اگست کے شمارے میں منور مرزا کا مضمون ہے، جس میں ’’حجلۂ عروسی‘‘ میں سجی ’’باجواہ ڈاکٹرائن‘‘ پر ایک فریفتگی کے عالم میں تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائےگئے۔ حالاں کہ ابھی حنا کی خوشبو ماند بھی نہیں پڑی تھی کہ اُس بدنصیب سہاگن کی مانگ اجڑ گئی اور وہ اپنے پیا کی چِتا کے ساتھ ہی ’’سَتی‘‘ ہوگئی۔

اب جس سرعت سے باجواہ ڈاکٹرائن کے سنگین نتائج مُلک میں شدید اقتصادی و معاشی بحران کی صُورت سامنے آرہے ہیں، وہ موصوف کے تجزیے اور پیش گوئیوں کے قطعی برعکس ہیں۔ اسی طرح 18دسمبر کے شمارے میں انہوں نے فیٹف کی گِرے لسٹ سے اخراج اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کو بہت بڑی کام یابی قرار دیا۔ یقیناً انہیں اس تلخ حقیقت کا احساس و ادراک تو ضرور ہوگا کہ استعماری قوّتوں کا کسی کم زور مُلک کو جبراً فیٹف کی کسی لسٹ میں شامل کرنےیاآئی ایم ایف کےسُودپرمبنی استحصالی پروگرام کے ذریعے کڑی شرائط مسلّط کرکے مالیاتی غلامی میں جکڑنے کا مقصد صرف اپنے مفادات کا حصول ہے، لہٰذا اس نام نہاد کام یابی پر شادیانے بجانے کےبجائے اُنہیں تشویش لاحق ہونی چاہیے کہ اس کام یابی کے حصول کے لیے ہم نے کتنی بھاری قیمت چُکائی یا اس کے عوض اپنی کن معاشرتی اور اخلاقی اقدار سےانحراف کیا یادست بردار ہوئے۔ سائفر بھی اُن کے نزدیک سڑکوں پر رچایا جانے والا ایک ڈراما ہے، حالاں کہ محبوب کا یہ ’’نامہ ٔ محبت‘‘ سیاسی اختلاف یا حمایت سے قطع نظر ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، جس کا اب سب ہی کو برملا اعتراف ہے۔ (محمّد جاوید، اقبال ٹاؤن، راول پنڈی)

ج: آپ کی باقی باتیں تو چلیں کسی حد تک درست ہوں گی، مگر بنامِ خدا، سائفر ڈرامے کو ناقابلِ تردید حقیقت قرار دے کر ہمیں خُودسے متعلق (یعنی آپ سے متعلق) قائم کردہ ہماری گزشتہ رائے پرشرمندہ مت کیجیے۔ اگر سائفر، واقعی کوئی نامۂ محبت ہے تو وہ سابق وزیرِاعظم کی کسی معشوقہ یا معشوقہ کی امّی جان ہی کی طرف سے آیا ہوگا، امریکا سے ہرگز نہیں اور آپ کی اطلاع کے لیے اب تو لہرانے والے خُود اپنی بات سےپِھر گئےہیں، آپ ناحق اُن کی بلا اپنے سَر لے رہے ہیں۔

گوشہ برقی خطوط

* آج سنڈے میگزین میں ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات پر احمد فراز کی ایک انتہائی خُوب صُورت، اچھوتی نظم آپ کےتوسّط سے پڑھنے کو ملی، بےحد شکریہ۔ بس ایک اصلاح کرنی تھی کہ ایک مصرعے میں غلط اعراب کی وجہ سے معنی کچھ کے کچھ ہو گئے۔ یقیناً ٹائپنگ/ پروفنگ ہی کی غلطی ہے۔ مگر نشان دہی اِس لیے ضروری سمجھی کہ نوجوان نسل پہلے ہی کتب بینی اور معیاری شعر و شاعری سے کنارہ کشی اختیار کرتی جا رہی ہے، تو اگر آپ لوگوں نے اُردو کو زندہ رکھنے کا بیڑہ اٹھایا ہی ہے، تو اِس میں کچھ حصّہ ہم بھی ڈال دیں۔ مصرع تھا ؎ شجر، حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں۔ تو تحریر میں لفظ گِل کو ایک پیش کے ساتھ ’’گُل‘‘ کردیا گیا۔ (اشرف ملک، اسلام آباد)

ج: اشرف صاحب! ہم آپ کے انتہائی ممنون، شُکر گُزار ہیں کہ آپ نے اس طرح اصلاح فرمائی۔ بےشک یہ کمپوزنگ ہی کی غلطی تھی۔ بہرحال، آئندہ بھی ایسی کوئی غلطی، کوتاہی نوٹ کریں، تو لازماً رہنمائی فرمائیں۔

* مَیں، آج سے نہیں۔ پچھلے 20 سالوں سے سنڈے میگزین کا قاری ہو اور سچ کہوں تو مجھے ایک اچھا انسان بنانے میں اس جریدے کا بہت ہاتھ ہے۔ (انس رحمٰن، حیدرآباد)

ج: جزاک اللہ۔

* آپ کا ’’سال نامہ‘‘ بلاشبہ آپ لوگوں کی دن رات کی محنتوں کامنہ بولتا ثبوت تھا۔ اتنے مختصر سے جریدے میں اتنا کچھ سمو دینا اور ایک ترتیب و اہتمام کے ساتھ، یقیناً آپ ہی کا خاصّہ ہے۔ بخدا، مَیں تو سنڈے میگزین کی عظمت کی قائل ہوگئی۔ (شاہینہ ادریس، ملتان)

ج: بےحد شکریہ شاہینہ! آپ لوگوں کی یہی حوصلہ افزائی ہمارے لیے مہمیز کا کام کرتی ہے۔

* سنڈے میگزین کا ہر دل عزیز صفحہ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہے۔ بلاشبہ یہی وہ صفحہ ہے، جس نے ایک طویل عرصے سے اس جریدے سے جوڑ رکھا ہے۔ براہِ مہربانی اس کو کبھی بند کرنےکا سوچیے گا بھی نہیں۔ (احمد علی، کراچی)

ج: جی، آپ کا حُکم سر آنکھوں پہ۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk