• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: ادیبوں، دانش مَندوں کی خدمات ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

ادیبوں، دانش مَندوں کی خدمات

18دسمبر کے شمارے کو محمود میاں نجمی اپنے قلم کی خُوشبو سے مہکائے ہوئے تھے، جب کہ حکیم راحت نسیم مچھلی کی افادیت، اہمیت اور موسم کی مناسبت سے بڑا بھرپور مضمون لے کر آئے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی تعلیمی خدمات اور جذبات نے بہت متاثر کیا، جب کہ برصغیر کے معروف و مقبول شاعر نظر امرہوی پر اختر سعیدی نے بھی ایک بہت جامع مضمون لکھا۔ وہ اس سے پہلے خالد علیگ اور رشید اثر پر لکھ کر بھی خاصی داد وصول کرچُکے ہیں۔ ویسے سنڈے میگزین کے لیے یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ اِسے کئی قابل، زیرک ادیبوں، دانش مندوں کی خدمات حاصل ہیں۔ اِسی شمارے میں ’’پیدل سفر حج کا ارادہ‘‘ بھی پڑھا۔ 

میری ناقص رائے میں تو اللہ یہ نہیں کہتا کہ میرے گھر حاضری دینے کے لیے آپ تکلیف و اذیّت کا راستہ اختیار کریں۔ سفر کا تخمینہ انہوں نے15لاکھ لگایا تو کیا یہ سُکون سے جس طرح پوری خلقت سفر حج کے لیے جاتی ہے، نہیں جاسکتے تھے۔(واللہ اعلم بالصواب) اس شمارے میں ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا انتخاب سو فی صد درست تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کو ڈاکٹر تبسّم سلیم جیسے اچھے لکھاری اِسی ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے ملتے رہیں گے۔ ہمیں تو رونق افروز برقی کے خط نے بھی متاثر کیا۔ انہوں نے سو فی صد درست کہا کہ آج کل انٹرویوز بہت ہی زبردست شخصیات کے ہو رہے ہیں، جیسے سید سرفراز شاہ، سیّدہ عارفہ وغیرہ۔ انہیں ہم واقعی نایاب کہہ سکتے ہیں۔ (ہومیو ڈاکٹر ایم شمیم نوید، گلشن اقبال، کراچی)

ج: جی، بجا فرمایا آپ نے۔ الحمدللہ، ہمیں کئی اچھے لکھاریوں کی بےمثال اور بلامعاوضہ خدمات حاصل ہیں، جن میں سرفہرست محمود میاں نجمی، منور مرزا، رائو محمّد شاہد اقبال، عرفان جاوید، سلمیٰ اعوان، ڈاکٹر احمد حسن رانجھا اور اختر سعیدی جیسے مایۂ ناز قلم کار شامل ہیں۔

قلم کو کتنا ہی روکوں؟

’’مدینہ منوّرہ… عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک…‘‘ کی بات کروں، تو اپنے محمود میاں نجمی بھی کیا لکھتے ہیں کہ لفظ لفظ سے خُوشبوئیں پھوٹتی محسوس ہوتی ہیں۔ سیدنا عُمر فاروقؓ کی ہجرت کا منفرد واقعہ واقعی ساری دنیا کےلیےایک روشن مثال ہے، پھر اپنے قلم کو انسانیت کی بے لوث محبّت میں ڈبوکر، نپے تُلے الفاظ ورق کے سینے پر سجانے والے منور مرزا اس بار کیا پتے کی بات سمجھا گئے کہ جمہوریت میں امورِ خارجہ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر طے کیے جاتے ہیں، سڑکوں اور عوامی جلسوں میں نہیں۔ رئوف ظفر بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی سے نجات کے لیے ’’فریدی ایگزاسٹ ری یوٹیلائزنگ ڈیوائس‘‘ سے متعلق اہم معلومات لائے۔ واقعی اگر اس ڈیوائس کا استعمال عام ہوجائے تو ماحولیاتی آلودگی کے لیے کس قدر سُود مند ثابت ہو۔

اے کاش! ہمارے یہاں بھی قابلیت اور صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کا چلن عام ہو۔ محمّد ہمایوں ظفر اور سلیم اللہ صدیقی کی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری سے نشست زبردست رہی۔ یہ جان کر خُوشی ہوئی کہ موصوف پہلے بہت غصّہ کرتے تھے، مگر اب اچھی ٹیم کی وجہ سے اُن کا غصّہ کافور ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن رانجھا بھی کیا خُوب ’’دہلی نامہ‘‘ لکھ رہے ہیں۔ سنڈے میگزین کو بنانے، سجانے والوں کو شاباش کہ اردو کے باغ میں کیسے کیسے پھول کِھلا رہے ہیں۔ ’’دل و دماغ کی غذا، مچھلی‘‘ سے متعلق حکیم راحت نسیم کی عُمدہ، معلوماتی تحریر سے بھی بہت فیض یاب ہوئے اور اس بار ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کو آپ لوگوں نے تتلیوں کے رنگوں سے کیا اچھا سجایا کہ قوسِ قزح کے رنگ بکھرے معلوم ہوئے۔ 

اُس پر آپ کا مصرع اور رائٹ اَپ ’’سَرما گُھلا کے آنکھیں میں نکلا نہ کیجیے…‘‘ واہ!! پریسا جیسی ماڈل اور قلم نرجس ملک کا ہو، تو پھر رنگ و نُور کا دریا تو رواں ہونا ہی تھا۔ موسمِ سرما اور گرما گرم حلووں کا بھی جواب نہ تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات ناقابل فراموش ہی تھے۔ اور اختر سعیدی تو الفاظ کی کیا زلفیں سنوارتے ہیں۔ باادب، باملاحظہ، ظل سبحانی آ پہنچے ہیں، سنڈے میگزین ٹرین کے آخری ڈبے ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر کہ جس میں کئی مہکتے، مُسکراتے خطوط کے درمیان ایمن علی منصور کی چٹھی پکار، پکار کر اعلان کررہی تھی کہ ؎ ہم سے ہے زمانہ، زمانے سے ہم نہیں۔ ویسے کبھی کبھی ہم بھی سوچتے ہیں کہ اگر سنڈے میگزین نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ ہمارے لیے تو گویا زندگی رُک سی جاتی۔ یہ ہی سبب ہے کہ قلم کو کتنا ہی کیوں نہ روکیں، مگر یہ لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ میری طرف سے آپ کی اور آپ کی جواں ہمّت ٹیم کی کاوشوں کو سلام۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: سوال یہ ہے کہ آپ خُود پہ اتنا جبر کرتے، قلم کو روکتے ہی کیوں ہیں۔ اگر سنڈے میگزین کے بغیر زندگی رُکتی محسوس ہوتی ہے، تو جو اس زندگی میں حرارت کا سبب ہے، اُسے وقتاً فوقتاً یہ بات ضرور بتانی چاہیے۔

ایک چھوٹی سی کائنات

سال کا پہلا پہلا شمارہ، سال کی پہلی پہلی خُوشی سے ہم کنار کرگیا۔ سالِ نو کے خُوب صُورت پیغامات کی نغمگی میں ہم بھی ’’لاہور، کراچی دوستی زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ’’یہ دوستی، ہم نہیں چھوڑیں گے‘‘ کہتے ہوئے جو قدم بڑھائے، تو سب سے پہلے ایڈیٹر کی اُس تحریر سے سامنا ہوا، جس کا ہم سال بھر انتظار کرتے ہیں، یعنی؎ تھا جس کا انتظار، وہ شاہ کار آگیا۔ شعری حسنِ ذوق، تسلسل و روانی، الفاظ کا زیرو بم ؎ جھیلا ہے مَیں نے تین سو پینسٹھ دُکھوں کا سال… سال2022 کا منہ زور گھوڑا، قلم کی چابک سے صفحے میں دبکا وسہما، کُوزے میں بند دریا کی مانند پورے سال کی کتھا سنا گیا۔ گھڑی کی ٹِک ٹِک میں مہینوں ہی کی سرگزشت نہیں بلکہ منٹوں، سیکنڈوں کی صدا ہمیں اپنے ساتھ یوں بہا لے گئی کہ نظر اُٹھائی تو سال2023ء کے دہانے پر کھڑے اُن کے ساتھ یہ دُعا مانگتے نظر آئے؎ ہر پھیلی ہتھیلی کی دُعائوں کو دُعائیں… ہر پائوں کو منزل کی طرف چال مبارک۔ ’’اُمتِ مسلمہ‘‘ یوں نوحہ کُناں دکھائی دی کہ ؎ امن و امان خرید کے لادے کوئی…اور ’’عدالتِ عظمیٰ‘‘ میں سابق وزیر اعظم بھی ہاتھ جوڑتے نظر آئے کہ ؎ مصنف تو کسی سے بھی رعایت نہیں کرتا۔ ’’بساطِ عالم‘‘ نے یوکرین کے بھڑکتے شعلوں میں انسان کے شیطان و حیوان بننے کا نقشہ دکھایا ؎ دہکا ہوا تھا، آتش گل سے چمن تمام… ’’افواجّ پاکستان‘‘ میں سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا فوجی کمان جنرل عاصم منیر کو سونپنا بتلا گیا کہ ؎ نغمۂ سحر بھی ہے، آہِ صبح گاہی میں… سال2022ء کی ویڈیو آن ہوئی، تو پہلی کِلک ہی آنکھوں کو نم کرگئی کہ سیلاب کی لشکر کَشی جو دکھائی دی اور ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ پڑھ کر اور خالقِ حقیقی سے جا ملنے والوں کی تصویریں دیکھ کر آنکھیں بھر آئیں۔ واقعی ؎ خاک میں کیا صُورتیں ہوں گی کہ پہناں ہوگئیں۔ صوبوں کے احوال نےتو ایک نگاہ میں سارا سال سمو کے رکھ دیاجیسے۔ اور پھر آپ کا صفحہ کی سال بھر کی چٹھیوں کا تجزیہ۔ سچ تو یہ ہے کہ جریدہ، جریدہ نہیں، اِک چھوٹی سی کائنات معلومات ہوا۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)

سمجھ داری، عرق ریزی

اس ناچیز کا نام سال نامے میں درج کرنے پر آپ کا اور سنڈے میگزین کی ٹیم کا بہت بہت شُکر گزار ہوں۔ سال نامے کے ٹائٹل کا جواب نہ تھا۔ بڑی سمجھ داری اور عرق ریزی سے تیار کیا گیا اور پھر ہر ایک تحریر نے تو بس دل ہی موہ لیا۔ (شِری مُرلی چند جی،گوپی چندگھوکلیہ، شکارپور)

ج: جی، بے شک، سنڈے میگزین کا سرورق بہت محنت، سمجھ داری اور عرق ریزی ہی سے تیار کیا گیا۔

سال بھر کا جائزہ

اس بار بھی ہمیشہ کی طرح دو ہی شماروں پر (یکم اور آٹھ جنوری کے) تبصرہ کروں گا۔ نئے سال کا پہلا شمارہ تو سالِ رفتہ 2022ء کا احاطہ کیے ہوئے تھا۔ ہمیشہ کی طرح آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ محفوظ رکھنے کے قابل ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں بھی آپ نے سال بھر کے اِس ہفتے کے چٹھی ہولڈرز کا ذکر فرما دیا۔ مستقبل تبصرہ نگاروں میں مجھ ناچیز کا بھی ذکر آیا، بےحد شکریہ۔ بے شک، یہ آپ کی محبت اور اپنا پن ہے۔ ’’ایک پیغام‘ پیاروں کے نام‘‘ میں میرا پیغام بھی شامل تھا۔ گرچہ کاغذ کی گرانی کی وجہ سے سال نامہ خاصاسکڑ کر رہ گیا ہے، لیکن الحمدللّہ، کم صفحات میں بھی پُورا سال سمو کے رکھ دیا گیا۔ دوسرے شمارے میں بھی زیادہ تر مضامین سالِ گزشتہ کے واقعات سے متعلق تھے۔ 

خواتین نے کٹھن و نامساعد حالات میں بھی کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ کوئی منظر نامے پر اُبھرا، تو کوئی پس منظر میں چلا گیا۔ سات لاکھ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہنرمند جوان مُلک چھوڑ گئے اور ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بچّے سیلاب سے متاثر ہوئے۔ یوکرین جنگ سے معاشی بھونچال آیا۔ ہر سُو منہگائی کی صدائیں بلند ہوئیں اور موسمیاتی تبدیلی نے قیامت ہی ڈھا دی۔ سیلاب نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ قطر، فیفا ورلڈ کپ کے ذریعے ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ پاکستان میں کرکٹ مکمل طور پر بحال ہوئی۔ مولا جٹ نے کئی ریکارڈز بریک کیے۔ ڈیجیٹل دنیا کی بے اعتباری و بے اختیاری میں کچھ اور بھی اضافہ ہوا۔ 

غرض محض سُرخیوں پر نگاہ ڈال کے ہی سال بھر کا جائزہ لے لیا گیا۔ واقعی دونوں ہی شمارے ریکارڈ میں رکھنے کے قابل ہیں۔ ویسے اس وقت گندم کے بحران نے سر اُٹھایا ہوا ہے۔ پچھلے سال جس گندم کا ریٹ چوبیس سو روپے مَن تھا، اس سال (جنوری کے وسط میں) باون سو روپے من فروخت ہو رہی ہے۔ اللہ پاک ہم پر رحم فرمائے۔ آپ نے شری مُرلی چند کے خط کے جواب میں فرمایا کہ ’’اگر آپ کے خط باقاعدگی سے شائع نہیں ہوتے، تو پھر کسی کےبھی نہیں ہوتے۔‘‘صدفی صددرست فرمایا۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول لنگر)

ج: آپ کو ہمارے سال نامہ اسپیشل ایڈیشنز پسند آئے۔ سمجھیں، محنت وصول پا گئی۔

اس ہفتے کی چٹھی

شروع کرتی ہوں، اُس ذاتِ رحیمی کے نام سے، جو اثر ڈال دیتا ہے، بے زبانوں کے بیان میں۔ اُمید کرتی ہوں، آپ بخیرو عافیت ہوں گی۔ بہت سی باتیں، بہت دِنوں سے خط لکھنے پر مجبور کررہی تھیں، لیکن لکھ نہیں پائی۔ مگر پھر آج شائستہ اظہر صدیقی کی چٹّھی محرّک بن گئی۔ وہ مجھے اپنےجیسی لگتی ہیں۔ حسّاس اور دِلوں کی بات کرنے والی، البتہ اُن کی حسّاسیت اُن کی تحریر سے بھی جھلکتی ہے اور جب بات ’’حفظِ ماتقدّم‘‘ سے متعلق ہو ہی رہی ہے، تو بہنا میں بھی اعتراف کر ہی لوں کہ آپ کی30جنوری کی چٹھی دل و دماغ اور حواسوں پر چھائی رہی اور لاشعوری طور پر ہی سہی، اِس ’’حفظِ ماتقدّم‘‘ کامحرّک بنی۔ البتہ کہانی کا پہلا حصّہ آپ بیتی بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ (اب پلیز، آپ کوئی مقدمہ دائر مت کردیجیے گا۔ ہاہاہا…) ’’مدینہ منوّرہ، عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک‘‘، گرچہ یہ عقیدتوں،محبّتوں کاسفر، ہم بذریعہ تحریر تصوّرمیں کررہے ہیں، لیکن یہ دُعا ہمیشہ وردِ زبان رہتی ہے۔ ’’اپنے دوارے بلا لیجیے، جائے نہ جیون بیت نبیؐ جی…‘‘شمارہ ھذا، سال نامے کا تیسرا ضمیمہ بھی ہے، جب ہی تو تیسرے صفحے پر ’’سائنس، آئی ٹی‘‘ براجمان ہے۔ چھٹے سمندرکی دریافت نے واقعی انگشت بدنداں کردیا، لیکن ’’بے بی ٹی‘‘ نے بھی کچھ کم حیران نہیں کیا، البتہ پاکستان کے کسی بھی کارنامے کا تذکرہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملا، ہاں مگرخبروں میں سیاست دانوں کے کارنامے، پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائیاں،خون جلانے کو موجود رہتی ہیں۔ خیر چھوڑیے، اس بار ناقابل فراموش کے دونوں واقعات ’’جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے‘‘ کی عملی تفسیر ہیں، لیکن دسمبر کے آخری عشرے کے کسی شمارے میں شائع ہونے والے دونوں واقعات پر ہمیں اعتراض ہے۔ 

یہاں یہ وضاحت کردوں کہ تنقید برائے تنقید کو مَیں خُود بھی مذموم سمجھتی ہوں، لیکن تنقید برائے اصلاح تو ممدوح ہے۔ اُن میں سے ایک واقعہ درخت کاٹ دینے پر ایک صاحب کا گھر اجڑجانےسے متعلق تھا اور اُسی درخت کو کسی اور نے دیکھ بھال کرکےسرسبزو شاداب کردیا،تو اُس کاگھرانہ خوش حال ہوگیا۔ جانتے ہیں، احادیث مبارکہ ؐ میں بھی درخت لگانے کے بے شمار فضائل مذکور ہیں، لیکن خُود سے یوں جزا و سزا کے احکام لاگو کرنابھی درست نہیں اور اِسی طرح دوسرے واقعے میں سانپ کو ماردینے پر دو دوستوں کی موت کو سانپ کے بدلے سے جوڑنا بھی سمجھ سےباہر ہے،جب کہ حضورؐ نے بھی سانپ کو مارنے کا حُکم دیا ہے۔ 

اگر آپ بُرا نہ منائیں، تو ایک اور بات کہ اُن ہی دِنوں ماڈلز کے حُسن وجمال پر بھی بحث سی چل رہی تھی، تو وہ بھی طبیعت پر گراں گزری۔ غیر اختیاری امور پر بحث عبث ہے۔ جب ہم خالق کی تخلیق کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ دراصل خالق ہی کی تعریف ہے،اور خالقِ حقیقی نے جب خُود ہی ’’لقدخلقنا الانسان فی احسنِ تقویم‘‘ فرماکر حجّت تمام کردی، تو بس سمجھ لیاجائے کہ انسان خُوب صُورت ہے، آپ کی کیا کہتی ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی ماڈلنگ دیکھ کر تو بس یہی مصرع ذہن میں آتا ہے کہ ؎ طلب کرتے ہو، دادِ حُسن تم، پھر وہ بھی غیروں سے… ’’پیمانِ نو‘‘ قانتہ رابعہ کی ہمیشہ کی طرح بہترین تحریر تھی۔ 

ہم بھی ہر سال اپنا ’’عہدنامہ‘‘ لکھتے ہیں۔ کچھ مثبت تبدیلیوں کے لیے کچھ اہداف متعیّن کرتے ہیں اور پتا ہے اِمسال ہم نے اپنا عہدنامہ اُن خامیوں کی درستی کے لیے تیار کیا، جن کی آپ نے جنوری کے پہلے شمارے میں نشان دہی کی ہے۔ ’’جذباتی، حسّاس اور زودرنج‘‘ بس، حسّاسیت کو عہدنامے میں شامل نہیں کیا کہ شاید یہ ہی وہ جذبہ ہے، جو ہمہ وقت اللہ سے جوڑے رکھتا ہے کہ ؎ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے، نگاہ آئینہ ساز میں… اور شاید عورت اور حسّاسیت لازم و ملزوم ہیں، جب ہی تو آبگینے سے تشبیہہ دی گئی۔ جن سے دل کا تعلق ہو، اُن سے لمبی ’’ٹاکیں‘‘ کرتے صفحات گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔ 

سو، مَیں نے بھی کچھ زیادہ ہی لکھ دیا، لیکن ایک شکوہ ہے کہ آپ نے اپنا آٹوگراف دینے سے بڑی سہولت سے انکار کردیا۔ حالاں کہ مَیں تو اُسے کسی قیمتی متاع کی مانند ساری عُمر سنبھالے رکھتی۔ وہ کیا ہے کہ یلوح الخط فی قرطاس دھراً (ورق پر لکھے الفاظ امرہو جاتے ہیں، ایک زمانے تک چمکتے رہتے ہیں)۔ چند دن پہلے جنگ کی ایک کارکن کی فیس بُک پوسٹ دیکھی کہ آپ لوگوں کو نومبر کی تن خواہ اب تک نہیں ملی، جان کر بہت افسوس ہوا، مگر اک آسودگی بھی ہوئی کہ اس سب کے باوجود آپ سب ہی اپنے کام سے کس قدر مخلص ہیں۔ کتنی دل جمعی سے ہمارے لیے یہ میگزین ترتیب دیتے ہیں۔ اللہ پاک جزائے کاملہ عطا فرمائے اور آپ لوگوں کے لیےبہت آسانیاں بھی کرے۔ (آمین) (اقصیٰ منوّر ملک، صادق آباد)

ج : تمھاری بہت سی باتیں جواب طلب ہیں، لیکن تمھاری چٹھی ہی اتنی طویل ہوگئی ہے کہ اب اگر ہم جواب دینے بیٹھے تو کئی کا حق مارا جائے گا۔

                   فی امان اللہ

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین میں منور مرزا صاحب کا ایک آرٹیکل شائع ہوا، جو مجھے بےحد پسند آیا۔ اِس آرٹیکل میں منور مرزا نے ایک اہم سوال اُٹھایا، جس کا وہ خُود بھی جواب دے سکتے تھے، لیکن غالباً کسی وجہ سے نہیں دیا، تو مَیں اُس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ سوال یہ تھا کہ ’’ہم بچپن سے سُنتے آرہے کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، تو کیا وجہ ہے کہ یہ وسائل 75سالوں میں بھی پاکستان کو ایک خوش حال مُلک نہیں بنا سکے؟‘‘ تو اِس اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’جس قوم کے لیڈرز بےایمان اور نااہل ہوں اور جس مُلک کا ہر ادارہ کرپشن میں لُتھڑا ہو، کوئی ایک ادارہ بھی اپنی حدود میں رہ کر کام نہ کرتا ہو، تو پھر اس مُلک کے وسائل جنّت جتنے بھی کیوں نہ ہوں، وہ کبھی ترقی و خُوش حالی کی ڈگر پر گام زن نہیں ہو سکتا۔‘‘ (محمّد کاشف)

ج: بہت اعلیٰ، آپ کا جواب سو فی صد درست ہے۔ اور ہماری نظر میں تو آپ کی یہ ای میل، ’’ای میل آف دی ایئر‘‘ کے اعزاز کی مستحق ہے۔

* بچّوں سے متعلق شفق رفیع کی رپورٹ پڑھ کر آنسو نہیں تھم رہے تھے۔ آہ! جن بچّوں کی خُود غباروں سے کھیلنے کی عُمر ہے، اُنہیں بھوک و افلاس، تنگ دستی و معاشی بدحالی نے غبارے بیچنے پر مجبورکردیا ہے۔ (صاعقہ سبحان)

* حالیہ سنڈے میگزین بھی ہمیشہ کی طرح بہت ہی پسند آیا۔ ہر تحریر اپنی اپنی جگہ خُوب تھی۔ مگر صفحہ ’’ڈائجسٹ ‘‘ کے دونوں افسانوں کا تو کوئی مول ہی نہ تھا۔ سرطان سے متعلق بہت ہی معلوماتی تحریر پڑھنے کو ملی اور ہاں، اس بار تو ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات کا بھی جواب نہ تھا۔ آخر میں آپ کا بہت بہت شکریہ کہ میری ای میل شائع کر دیتی ہیں۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، کراچی)

ج: تمہارا بہت بہت شکریہ کہ آج کے اِس برق رفتار دور میں نہ صرف میگزین پڑھتی ہو، بلکہ اپنی رائے کا بھی اظہار کرتی ہو۔

*  آپ کے ’’سال نامے‘‘ کا جواب نہ تھا۔ دونوں حصّے پڑھ کر دل خُوش ہوگیا، خاص طور پر چھوٹی، بڑی اسکرینز سے متعلق رپورٹس کا تو کوئی جواب ہی نہ تھا۔ (رمیش کمار کھتری، چنسیر گوٹھ، کراچی)

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk