پاکستان، آئی ایم ایف اور امریکہ

March 22, 2023

حکومتی یقین دہانیوں اور سخت اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف کے طرزِ عمل، آئے روز نت نئی شرائط اور مطالبات سے آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدہ تعطل کا شکار ہے اور آنے والے دنوں میں معاہدہ بحال ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف نے پاکستان سے معاہدے کیلئے 4پیشگی شرائط رکھی تھیں، ان میں بجلی کی قیمتوں میں 3.82فی یونٹ اضافہ، شرح سود بڑھانے، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ سے منسلک کرنے اور بیرونی فنانسنگ کی تحریری یقین دہانی جیسے نکات شامل تھے۔ ان پیشگی شرائط میں سے تقریباً تمام شرائط حکومت نے کافی حد تک پوری کردی ہیں مگر ان سخت حکومتی اقدامات کے باوجود بھی آئی ایم ایف اسٹاف لیول معاہدے پر راضی نہیں ہواجب کہ حکومت بے بس نظر آرہی ہے اور پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔

موجودہ صورتحال کو کچھ تجزیہ نگار 1998 جیسے حالات سے تعبیر کررہے ہیں جب پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے سخت ترین شرائط کا سامنا تھا تاہم آج صورتحال اس سے مختلف ہے اور معاہدے کی بحالی میں تاخیر کو بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ آئی ایم ایف، امریکہ یا دوسری عالمی طاقتوں کی خارجہ پالیسیوں کی ایک ایکسٹینشن ہے اور یہ اُن کے ایما پرہی اپنی پالیسیاں مرتب کرتا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی اور محاذ آرائی نے خطے میں گروپنگ کی شکل اختیار کرلی ہے، ایک طرف امریکہ، بھارت کو خطے میں اپنا حامی سمجھتا ہے جس کے ذریعے وہ ایشیا میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کا خواہاں ہے تو دوسری طرف پاکستان کو چین کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں امریکہ، آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے، اسی لئے آئی ایم ایف پاکستان سے معاہدے کی بحالی میں تاخیری حربے اختیار کرتے ہوئے نت نئی شرائط عائد کررہا ہے۔

امریکہ کی یہ حکمت عملی ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں چین، پاکستان کو مالی طور پر بیل آئوٹ کرے لیکن اگر چین مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیتا اور پاکستان ڈیفالٹ ہوتا ہے تو چین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور پاکستانی عوام میں یہ منفی پروپیگنڈہ کیا جائے کہ چین جسے پاکستانی عوام اپنا دیرینہ دوست تصور کرتے ہیں اور ہم سی پیک میں چین کے پارٹنر ہیں، نے پاکستان کو برے وقت میں تنہا چھوڑ دیا۔ دوسری طرف امریکہ اسی طرح کی حکمت عملی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے لئے بھی اپنارہا ہے جو اگر مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی مدد کو نہیں آتے تو پاکستانی عوام میں یہ تاثر دیا جاسکے کہ برے وقت میں دوست ممالک نے پاکستان کی مدد نہیں کی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات آج کل نچلی سطح پر ہیں اور چین کی مدد سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والی صلح سے بھی امریکہ خوش نہیں تاہم چین اور پاکستان کے دیگر دوست ممالک، امریکہ آئی ایم ایف گٹھ جوڑ سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی مالیاتی فنانسنگ کے حوالے سے چین کی واضح یقین دہانی آچکی ہے اور چین کی جانب سے پاکستان کو 700 ملین ڈالر کے بعد مزید 500 ملین ڈالر قرض کی رقم موصول ہوچکی ہے جب کہ 300 ملین ڈالر قرض کے لئے پاکستان اور چین کے درمیان پیشرفت جاری ہے۔ اسی طرح آنے والے وقت میں سعودی عرب اور یو اے ای کی طرف سے بھی پاکستان کو 2ارب ڈالر کے اضافی ڈپازٹس ملنے کی توقع ہے جس کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب الر تک پہنچ جائیں گے جو آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے مگر اس امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ طے پاجانے کے بعد بھی معاہدے کی ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کیلئے آئی ایم ایف مزید تاخیری حربے اختیار کرے گا تاکہ پاکستان کی مشکلات برقرار رہیں اور ڈیفالٹ کی تلوار لٹکتی رہے۔

موجودہ معاشی بحران میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لانگ رینج ایٹمی میزائل پر سمجھوتہ نہ کرنے کے سینیٹ میں دیئے گئے بیان نے نئی بحث کا آغاز کردیا ہے اور ملکی سلامتی سے جڑے معاملات پر قیاس آرائیاں کی جانے لگی ہیں تاہم وزیر خزانہ کو اپنے بیان کی تردید کرنا پڑی۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بصورت دیگر ہم دشمن کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جائیں گے جس کا ذکر میں اپنے گزشتہ کالم ’’پاکستان معاشی قاتلوں کے جال میں‘‘ کرچکا ہوں۔ دوسری طرف پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی ہنگامی بنیادوں پر فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ وہ دوست ممالک کے فوری دورے کریں تاکہ انہیں پاکستان کے خلاف امریکہ، آئی ایم ایف گٹھ جوڑ سے آگاہ کیا جاسکے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کچھ عرصہ پہلے اپنے بیان میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان کے غریب لوگوںکا تحفظ کیا جائے مگر موجودہ صورتحال میں غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے اور آئی ایم ایف کے قول و فعل میں واضح تضاد نظر آرہا ہے۔