218 یونیورسٹیاں خاموش کیوں ہیں؟

March 30, 2023

رمضان کے دن اور رات اپنی رحمتیں، برکتیں، مغفرتیں بانٹتے گزر رہے ہیں ۔خوش نصیب ہیں وہ جنہیں اپنا زیادہ وقت عبادتوں میں گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ کسے خبر ہے کہ آئندہ رمضان کس کس کو نصیب ہوگا لیکن بہت سے ایسے ہیں جو یہ خیال کررہے ہیں کہ اس رمضان کے بعد بھی وہی سلطان ہوں گے۔ اور آئندہ رمضان میں بھی وہی سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ آئین، قانون سڑکوں پر رُسوا ہورہے ہیں ۔قوم قبیلوں اور برادریوں میں بٹی ہوئی ہے۔ طاقت کا سر چشمہ عوام،ملک کے اصل مالک مفت آٹےکے حصول میں کچلے جارہے ہیں۔

سیاست زوروں پر ہے مگرنظریات سے خالی۔ آئندہ دس پندرہ برس کی بصیرت سے عاری۔ انتقام کی آگ ہے کہ سرد ہی نہیں ہوپارہی ۔ گرفتاریاں ، جسمانی ریمانڈ، کہیں کہیں لہو بھی بہنے لگا ہے۔ ایک طرف عشق ہے جنون ہے۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کا ہجوم ہے۔ ریاست کی طاقت ہے۔ حکومت کے قانون نافذ کرنے کے ادارے ہیں۔

اس وقت نئی اور پرانی نسلوں کو جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ اچانک نہیں ہورہا ۔ یہ نتیجہ ہے گزشتہ چار پانچ دہائیوں کے انداز حکمرانی کا۔ ان دنوں جو حکمران ہیں ان کے ذہن بھی 1988سے اب تک کی سیاسی، اقتصادی، قانونی، آئینی مصلحتوں سے تعمیر ہوئے ہیں۔ تاریخ بار بار یہ کہتی ہے کہ 1985سے پاکستان میں منتخب اور غیر منتخب کے درمیان شراکت اقتدار ہے۔ جو کچھ اچھا برا ہوا ہے، اس کے ذمہ دار مملکت کے چاروں ستون ہیں۔ قدم قدم پر یہ نظر آتا ہے کہ ہماری جمہوری تربیت ہی نہیں ہوئی ہے۔ ہم اب تک قبائلی معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ حرف دانش منطق تو اپنے طور پر آزادانہ سوچنے کی ہمت دیتے ہیں۔ مگر ہم اپنی اپنی انا، اپنی اپنی پسند اور اپنے خود ساختہ آقائوں کے غلام ہیں۔ ایک دو سینیٹرز نے کچھ حوصلہ دکھایا ہے ورنہ آزادانہ سوچ کہیں نہیں ہے۔ کہیں ڈالر آزاد سوچ کو پابۂ زنجیر کردیتے ہیں۔ کہیں مسلک۔ کہیں برادری۔ کہیں سیاسی جماعت۔

جہاں غلامی کی یہ بستیاں ہوں، جہاں نظریات اسٹور روموں میں پھینک دیے گئے ہوں۔ جہاں اپنے ہم وطنوں کا احساس زندہ دفنادیا گیا ہو۔ جہاں آئندہ دس پندرہ سال میں ہوتی بربادی نظر آرہی ہو۔ مگر ماہرین ،محققین اس کی صورت گری سے گھبراتے ہوں۔ وہاں ہر گزرتا دن پھر یہی انارکی لے کر طلوع ہوگا۔ ہر نئی صبح پرانی شام کا منظر پیش کرتی ہو۔ تجزیہ کار۔ تجزیے کرتے ہوئے خوف خدا سامنے نہ رکھیں۔ حقائق اور اعدادو شُمار سے پہلو تہی کریں۔ کسی پہ نسل غالب ہو۔ کسی پہ رنگ، کسی پہ زبان وہاں معاشرہ تقسیم در تقسیم ہی ہوتا ہے۔ تاریخ واہگہ سے گوادر تک سنگین محاذ آرائی دیکھ رہی ہے۔

22 کروڑ جیتے جاگتے انسان، قدرتی وسائل کسی کی حکمتِ عملی کی بنیاد نہیں ہیں۔ عمران خان کو اگرچہ 10 ماہ بعد 10نکات دینے کا خیال آیا ہے ۔بہرحال اس کشیدگی کے عالم میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مگر یہ صحرا میں اذان ثابت ہوئی ہے۔ اگر ہمیں واقعی اپنے مستقبل، اپنی سلامتی پر تشویش ہوتی تو ان دس نکات کے تجزیے ہوتے۔ سیاسی اور اقتصادی طور پر ان کی افادیت کا جائزہ لیا جاتا۔ فکر کی بات تو یہی ہے کہ کیا ملک اس اقتصادی، سیاسی، سماجی، اخلاقی بحران سے نکل پائے گا۔ کہیں سے اگر ایسا کچھ اشاریہ دیا جارہا ہے تو اس پر تبصرہ محاکمہ تو ہونا چاہئے۔سیاسی جماعتوں کے لیڈروں، کارکنوں اور عہدیداروں کو تو چھوڑ دیں کیونکہ وہ اپنے اپنے آقائوں کے غلام ہیں۔ وہاں سے جو کچھ کہا جائے گا، ان کی زبانیں اس کی جگالی کریں گی۔ سیاسی زمینیں بنجر کردی گئی ہیں۔ یہ بحران سیاستدانوں اور ان کے سہولت کاروں کا ہی تو لایا ہوا ہے۔ سیاسی برادری تو آبادی کا صرف ایک یا دو فی صد ہوگی۔ اسے اداروں نے، میڈیا نے ملکی افق پر غالب کردیا ہے۔ نظریات، کسی لائحہ عمل، کسی فکری نظام سے خالی سیاسی برادری اپنی تربیت کے مطابق صرف محاذ آرائی ہی کرسکتی ہے۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دے سکتی ہے۔ قانون اور آئین یہ دھمکیاں سن کر کروٹ بدل کر سوجاتا ہے۔ لیکن پاکستان صرف سیاستدانوں تک تو محدود نہیںہے۔ملک میں 218سرکاری اورپرائیویٹ یونیورسٹیاںہیںجہاں لاکھوں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جہاں ہزاروں اساتذہ ہیں۔جنہوں نے عالمی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔اسلامی ادوار ملاحظہ کئے ہیں۔ ان کے زرخیز ذہن اور تابندہ صلاحیتیں ان حالات کو سازگار کرنے کے فارمولے بھی بتاتی ہیں۔ مگر نہ جانے کس خوف سے وہ خاموش رہتے ہیں۔ ہمارا رسمی میڈیا تو سیاستدانوں کے فرمودات سے ہی ہمیں مستفید کرتا ہے۔ مگر اب تو سوشل میڈیا کی وسعتیں میسر ہیں۔ لاکھوں نوجوان اساتذہ کے سامنے رہتے ہیں۔ لاہور سے کوئٹہ تک کا آسماں یہ سوال کررہا ہے۔ زر اگلتی زمینیں یہ پوچھتی ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم کب بروئے کار لائی جائے گی؟یہ صلاحیتیں کب اصلاح احوال کا ذریعہ بنائی جائیں گی؟والدین ہر سیمسٹر پر ہزاروں روپے خرچ کررہے ہیں۔ بہت سے معزز و محترم اساتذہ ترقی یافتہ ممالک سے ڈاکٹریٹ کرکے بھی آرہے ہیں۔ مہذب جمہوری معاشروں میں ہمارے ذہین اساتذہ کی تحقیق سے حالات تبدیل ہورہے ہیں۔ ایسے ذہن رسا رکھنے والے اساتذہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ وہ اپنے فکری اثاثوں سے اس بد قسمت قوم کی تقدیر کیوں نہیں بدلنا چاہتے۔ 1985سے پاکستان کی علمی، سماجی، اقتصادی اشاریے پستی میں چلے جارہے ہیں جن سیاسی رہنمائوں اور فوجی حکمرانوں کو ہم مسیحا سمجھ کر کسی معجزے کے انتظار میں رہتے ہیں وہ تورونما نہیں ہورہا۔

پاکستان کا قیام رمضان المبارک میں عمل میں آیا تھا۔ رمضان کے مقدس دنوں میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز، اساتذہ اور محققین ہمت کریں ۔ آگے آئیں۔ اپنی تحقیق کی روشنی میں آواز بلند کریں۔ ملک کے قدرتی وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بلوچستان، کے پی کے، سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد جموں وکشمیرکے جفاکش پاکستانیوں کی اعلیٰ استعداد کے تناظر میں کوئی روڈ میپ دیں۔ ہم نے یہ ذمہ داری نصف صدی سے سیاسی اور فوجی حکمرانوں پر چھوڑی ہوئی ہے۔ وہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ چند افراد کی ناکامی ہے اداروں یا ریاست کی ناکامی نہیں ہے ہر استاد، ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ اپنے حصّے کی شمع جلائے۔ کیا آپ کو مفت آٹے کے حصول میں سینکڑوں برقع پوش، چادروں میں لپٹی مائوں کی بے بسی بھی مجبور نہیں کرتی کہ اپنے تدبر اور بصیرت کو بروئے کار لائیں۔ یہ نسلوں کی بقا کا سوال ہے۔کون لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نائب انسان کو اس طرح بے بسی اور قطاروں میں لگا دیکھ کر خوش ہیں۔