ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ایک نئے بحران کا سامنا

April 01, 2023

وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لئے برآمدی صنعتوں کو دیا گیا مسابقتی انرجی ٹیرف ختم کر کے خود اپنی ہی بنائی ہوئی پالیسی کے برعکس فیصلے کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کو حاصل جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی تجدید کا وقت بھی سر پر آ چکا ہے۔ ایسے میں اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے بقا کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل کی برآمدات کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف پاکستان میں زرمبادلہ کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے بلکہ روزگار کی فراہمی میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران ٹیکسٹائل برآمدات میں نمایاں کمی کے باعث پاکستان کو زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی کا سامنا ہے جبکہ مالی سال 22-2021ء میں پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات میں 26فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سال میں ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے سالانہ 25 ارب ڈالر کی برآمدات کی استعداد حاصل کی ہے۔ تاہم انڈسٹری کی یہ بھاری سرمایہ کاری حکومت کے اس ایک فیصلے سے برباد ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برآمدی صنعتوں کیلئے توانائی کا مسابقتی ٹیرف ختم ہونے سے پنجاب کی ٹیکسٹائل انڈسٹری خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں سے بھی مسابقت میں پیچھے رہ جائے گی۔ مسابقتی انرجی ٹیرف کے تحت اس وقت برآمدی صنعتوں کو 19.99روپے فی کلو واٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم اس ٹیرف کے خاتمے سے سندھ کی نسبت پنجاب میں برآمدی سیکٹر کیلئے بجلی کی قیمت 3.65گنا زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ سندھ کی صنعتوں کو چار ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو گیس دستیاب ہے جس سے پاور جنریشن پر 11 روپے فی کلو واٹ خرچہ آتا ہے جبکہ پنجاب کی برآمدی صنعتوں کو 9 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو میں آر ایل این جی فراہم کی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں اس وقت بھارت میں انرجی ٹیرف سات سے آٹھ سینٹ اور بنگلہ دیش میں نو سینٹ فی کلوواٹ ہے جب کہ پاکستان میں اب ممکنہ انرجی ٹیرف 11 سے 12 سینٹ تک بڑھ چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کویورپی یونین کی طرف سےحاصل جی ایس پی پلس کی سہولت دسمبر 2023ء سے ختم ہو رہی ہے۔ پاکستان کو جی ایس پی پلس کی سہولت برقرار رکھنے کا معاملہ ستمبر، اکتوبر میں یورپی یونین کی پارلیمنٹ میں جائے گا جہاں ممبر ممالک اس پر حتمی فیصلہ دیں گے۔ واضح رہے کہ جی ایس پی پلس کی سہولت حاصل ہونے کے باعث پاکستان کی ایسی دو تہائی مصنوعات جن پر درآمدی ڈیوٹی لگنی ہوتی ہے ،وہ صفر ہے۔ تاہم اس کے لئے کچھ شرائط بھی ہیں جس کے تحت جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حامل کو انسانی حقوق، مزدوروں کے حقوق، ماحولیات کے تحفظ اور گورننس میں بہتری سمیت 27بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق کرنا ہوتی ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے بنیادی اصولوں کے تحت صنعتوں اور کارخانوں میں یونین سازی کو یقینی بنانا ہوگا جب کہ جبری یا رضاکارانہ مشقت، چائلڈ لیبر، کام کی جگہ پر جنس رنگ و نسل اور عقیدے کی بنیاد پر امتیازی طرز عمل کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ ان 27 کنونشنز کی خلاف ورزی کی صورت میں یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی اس سہولت پر نظرثانی کی مجاز ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ ان معاملات پر یورپی یونین کو مانیٹرنگ اور اس کی رپورٹنگ کو بغیر کسی تحفظات کے اظہار کے ماننا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں یورپی یونین کے ساتھ تعاون بھی ناگزیر ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ 2013 میں ملا تھا اور اس میں دو مرتبہ توسیع بھی ہو چکی ہے۔پاکستان اس سے پہلے یورپین مارکیٹ کے لئے 2002 سے 2004کے درمیان جی ایس پی اسکیم کے فوائد سمیٹتا رہا ہے مگر جی ایس پی پلس کی حیثیت پاکستان کے لئےاس وقت ختم کر دی گئی تھی جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں اس کو چیلنج کیا گیا ۔ اس وقت پاکستان کے علاوہ آرمینیا، بولیویا، کیپ وردے، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، ای سلواڈور، جارجیا، گوئٹے مالا، منگولیا، پانامہ، پیراگوئے اور پیرو جیسے ممالک جی ایس پی پلس کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وزارت تجارت کے مطابق 2014سے جی ایس پی پلس کے آغاز سے ہی یورپی یونین میں پاکستانی برآمدات میں 65 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا جب کہ یورپی یونین سے درآمدات میں 44فیصد اضافہ ہوا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان یورپی منڈیوں میں کم و بیش آٹھ ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جب کہ وہاں سے درآمدی بل پانچ ارب ڈالر کا ہے۔علاوہ ازیں یورپی یونین امریکہ کے بعد دوسرا وہ خطہ ہے جہاں پاکستان کا تجارتی حجم مثبت ہے جب کہ دنیا کے دیگر تمام ممالک کے ساتھ ہماری تجارت خسارے میں چل رہی ہے ۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت مسابقی انرجی ٹیرف بحال کرنے کے ساتھ ساتھ جی ایس پی پلس سٹیٹس کی تجدید کے لئے سفارتی کوششیں بروئے کا ر لائے تاکہ ملک کے لئے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والے سیکٹر اور اس سےوابستہ لاکھوں مزدورکے روزگار کو بچایا جا سکے۔ اس سنگین صورتحال کے باوجود بھی اگر حکومت نے ایکسپورٹ انڈسٹری کے لئے انرجی ٹیرف ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہ لیا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جس نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کے ازالے میں پھر کئی سال لگ جائیں گے اور گزشتہ چند سال کے دوران ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی جانب سے برآمدات بڑھا کر ملک کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے کی جانے والی کوششیں بھی رائیگاں چلی جائیں گی۔