کیا ہمارا افغان خبط ختم ہوچکا؟

June 18, 2016

اس سوال کے الفاظ یہ بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔ کیا’ تزویراتی گہرائی‘ کی لاش کو آخر کار دفنا دیا گیا ؟ہم احمق تھے جو عالمی طاقت کی مہم جوئی کی دلدل، جسے افغان جہاد کہتے ہیں، میں اترگئے۔ اس کے نتائج و عواقب پر غور کیا، نہ مستقبل میں ادا کی جانے والی قیمت کا تخمینہ لگایا، اسلام کی عظمت ِرفتہ کی غیر حقیقی توقعات کے گھوڑے پر سوارماضی کے چند جنرلوں نے التباسات کی ایسی دنیا بسالی کہ بہت کچھ اجاڑ کر رکھ دیا۔ماضی کوجانے دیں، ابھی حال ہی میں، موجودہ آرمی چیف کی قیادت میں ہم ایک بے سروپا خواب کو حقیقت مان کر اس سے چمٹے ہوئے تھے کہ ہم طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاسکتے ہیں۔ ہم نے امریکیوں اور افغانوں کو یہ تاثر دیا تھا۔ جب ہم ایسا نہ کرسکے تو اب امریکی اورافغان ہم پر دہرا کھیل کھیلنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم حاصل ہونے والے تجربے سے سیکھنے کے لئے بنے ہی نہیں ۔ جن نام نہاد مجاہدین کو ہم نے افغان جہاد کے دوران پالا ، وہ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد ہماری بات سننے کے روادار نہ تھے۔ہم نے جن طالبان کی حمایت کی، وہ بھی افغانستان کا حکمران بننے کے بعد ایک حد سے زیادہ ہمار ی بات نہیں سنتے تھے۔ تو پھر جنرل اسٹاف اور آئی ایس آئی میں موجود افغان ماہرین کیا سوچ کر یہ دعویٰ کررہے تھے کہ ہم اُنہیں مذاکرات کی میز پر بٹھائیں گے ؟
حاصل ہونے والا تلخ تجربہ یہ کہ حقانی یا حکمت یار جیسے اثاثے پال کر افغانستان کے نام نہاد چوہدری بننے کا خیال کسی طور سود مند نہیں۔نہ تو ماضی میں یہ کوشش بار آور ثابت ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی۔ چین نے فرانس اور امریکہ کے خلاف جنگ میں ویت نام کی مدد کی، لیکن ویت نام کو چین کی ماتحت ریاست نہیں بنالیا۔ سب جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی تخلیق میں انڈیا کا کیا کردار تھا۔ عوامی لیگ بھارت نواز تھی ، لیکن بنگلہ دیش انڈیا کی ماتحت ریاست نہیں ہے ۔ کسی ریاست پر دوسری کا اثر کتنا ہوسکتا ہے ؟ لیکن ہمارے جنرل عقل وغیرہ سے دستبردار ہوکر تزویراتی گہرائی کے التباسی دائرے سے نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔ کیاہم یہ سوچتے تھے کہ اگر بھارتی فوج پنجاب میں داخل ہوگئی تو ہم افغانستان کے پہاڑوں میں اسٹرٹیجک پناہ تلاش کریں گے ؟یہ مانا کہ انسان سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں لیکن پیہم حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔آج بھی ریٹائرڈ تھری اسٹا ر جنرل اور دفتر ِخارجہ کے درخشاں ستارے سینہ تان کر کہتے ہیں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ کا حصہ بن کر درست فیصلہ کیا ورنہ وہ بحیرہ عرب کے گرم پانیوں تک پہنچ جاتا۔ ایسی نفسیاتی بیماری کا کوئی علاج نہیں ، کم از کم عسکری کتابوں میں اس کے لئے کوئی نسخہ نہیں۔ شیرازہ بکھرنے سے پہلے سوویت یونین ایران اور ترکی کے ساتھ طویل سرحد رکھتا تھا، لیکن اُس نے کبھی بھی ان ممالک کو پار کرکے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ تو افغانستان میں ہونے والی داخلی کشمکش تھی جس نے اُسے مداخلت پر مجبور کردیا، لیکن برطانوی سوچ (سوویت خوف اور نفرت) میں ڈھلے ہمارے جنرلوں اور سفارت کاروں نے سوچا کہ کابل کے بعد کوئی دن جاتا ہے جب سوویت فوج پاکستان میں داخل ہو کر، لمبائی کے رخ پورے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو عبور کرکے کراچی پہنچ جائے گی۔ آفرین ہے اس فہم پر!
آج افغان ہم پر ایک مہربانی ضرور کررہے ہیں۔ سوجوتے اور سوپیاز کھائے بغیرنہ سیکھنے والی اس قوم کا افغان خبط دور ہورہا ہے ۔ طورخم کے مسئلے پر افغانوں کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت موقف نے عشروںسے ہماری نظروں پر پڑی دھند ہٹا کر کچھ عقل سکھادی ہے کہ افغانستان کے داخلی مسائل سے ہمیںکوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ چاہے وہاں پشتون حکومت کریں یا تاجک یا خلاسے آنے والے دیگر جنگجو گروہ۔ یہ افغانوں کا مسئلہ ہے ، ہمارا نہیں۔ اگر افغان اپنے معاملات نہیں نمٹا سکتے اور ہمیشہ خانہ جنگی پر تلے رہتے ہیں تو ہم وہاں کس طرح امن قائم کرسکتے ہیں؟ روسیوں نے کوشش کی، ناکام ہوئے، امریکی گزشتہ پندرہ برسوںکی انتہائی کوشش کے باوجود کامیابی سے دور ، تو جب دوسپرپاورز ناکام ہوچکیں تو ہم کیا تیر مارسکتے ہیں؟
اس سے قطع نظر کہ کابل پر کس کی حکومت ہے ، ہمیں بطور ریاست افغانستان کے ساتھ مثبت رابطے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم افغانستان کے رسیلے انگوروں اور خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہوسکیں، افغان قالین خریدسکیں ، اور اس کے بدلے وہاں وہ چیزیں بھجو ا سکیں جن کی اُنہیں ضرورت ہے ۔ وہاں پاکستانی کوکنگ آئل ، گندم اور دیگر اجناس کی بہت مانگ ہے ۔ لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ گزشتہ افغان انتخابات میں استعمال ہونے والے اشتہارات اور دیگر مواد کی چھپائی پاکستان میں ہوئی تھی۔ ہمیں اس قسم کے تعلقات کی ضرورت ہے ۔ چنانچہ تزویراتی گہرائی کی جگہ تزویراتی تجارت کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اس کے بعد داخلی معاملات افغانستان پر چھوڑ دئیے جائیں۔
افغان شوریٰ کی اب کوئی گنجائش نہیں، اب وہ قندھار یا ہلمند شوریٰ بنائیں اور اس کے رہنما ہماری جان چھوڑ دیں اورافغانستا ن کے خوبصورت پہاڑوں میں گھری پاکیزہ سرزمین پر تشریف لے جائیں، ہمیں طالبان اور ان اثاثوں کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اب ہم افغان مہاجرین کے لئے بھی پالیسی سازی کریں گے ۔ ہم نے اُنہیں طویل عرصے سے پناہ دی ، اب ہمیں عالمی برادری کو مطلع کرنا چاہئے کہ اُن کے گھر جانے کا وقت آگیا ہے ۔ ہمیں اپنے امریکی دوستوں کو بھی بتانا ہوگا کہ اگر اُنہیں افغانوں کی بہت فکر ہے تو وہ بحری جہازوں میں بھر کر اُنہیں اپنی سرزمین پر لے جائیں۔ اس پر ڈونلڈ ٹرمپ کو یقینا بہت ’’مسرت ‘‘ہوگی ۔ اگر آپ کابل جائیں تو پتہ چلے گا کہ وہاں اردو عام بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے افغانوں کے لئے کیا کچھ کیا ہے ۔ اس کے باوجود یہی افغان اب پاکستان کو ٹھوکریں ماررہے ہیں ۔ کیا ہم دنیا کے سب سے بڑے اذیت پسند ہیں جن کے لئے یہ سزا راحت رساں ہے؟
چونکہ امریکی ہمیں سال میں آٹھ سوملین ڈالر کے قریب امداد فراہم کرتے ہیں، اس لئے وہ ہمیں گردن سے پکڑ کر جھنجوڑتے اور توہین آمیزطریقے سے سوال کرتے ہیں۔ اور ہم بھی رقم جیب میں ڈال کر یہ بے عزتی برداشت کرتے رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا چاہئے، لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا کشکول، اگر توڑ نہیں سکتے ، قدرے محدود کرلیں۔ ہمیں اپنے وسائل میں جینا سیکھنا ہوگا۔ جب تک ایسا نہیں کرسکتے،کم از کم خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دینا ہی موقوف کردیں۔ گدا گر ی شعار اور عالم ِاسلامی کی رہبری کا دعویٰ! این چہ بو لعجبی است؟ہمیں شکوہ رہتا ہے کہ امریکی ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔ وہ اچھا سلوک کیوں کریں جبکہ ہمارے سیاست دان اور اہم ترین افراد واشنگٹن کے سامنے دست طلب دراز رکھتے ہیں؟ہمیں شکایت کہ امریکہ ہمیں استعمال کرکے ٹشو کی طرح پھینک دیتا ہے۔ یہ چالاکی ہے ، اور امریکی یقینا بہت چالاک ہیں، ورنہ سادہ لوح قوم تو دنیا کی سپرپاور نہیں بن سکتی۔ لیکن اہم سوال تو ہمیں خود سے کرنا چاہئے کہ ہم کسی کو اس کی اجازت ہی کیوں دیتے ہیںکہ ہمیں استعمال کرے ؟ہم ایسا تاثر کیوں دیتے ہیں کہ ہماری عزت ایک حساس آبگینہ ہے جسے ہر کوئی پامال کرنے پر تلا ہوا ہے ؟
افغانستان کے حوالے سے ایک اور بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہمیں اس کے ساتھ تعمیری اور مثبت طرز عمل کی ضرورت ہے۔ دوستی، مذہبی تعلق، ثقافتی رشتے وغیرہ ایسا جذباتی اظہار ہیں جس کی گٹھڑی ہم نے بہت دیر سے گردن پر اٹھا رکھی تھی۔ حقیقت یہ کہ افغان ڈیونڈر لائن کو تسلیم نہیں کرتے ۔ ہم ان کے سامنے گھٹنے ٹیک لیں یا اُنہیں راضی کرنے کے لئے اپناملک برباد کرلیں، وہ ہم سے اس بارڈر کی وجہ سے کبھی دوستی کرہی نہیں سکتے ۔وہ صرف اُس صورت مطمئن ہوں گے جب اُنہیں دریائے سندھ تک کا علاقہ دے دیا جائے ۔ لیکن ٹھہریں، فرض کریں ہم یہ مان لیں تو پھروہ بلوچستان کے پشتون علاقوں پر دعویٰ کریں گے۔ اگر یہ بھی مان تو پھر سمندر تک رسائی چاہیں گے۔ ہم نے کشمیر کی وجہ سے بھارت اور ڈیورنڈ لائن کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ دشمنی مول لے رکھی ہے ۔ ہمیں پوری استقامت سے بتدریج ان مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کے لئے پاکستان کو بیدار مغز سیاست دانوں کی ضرورت ہے، تو خوشنما رومانوی تصورات سے رہائی بھی درکار ہے۔ شاید بہت دیر کے بعد افغان رومانس سے جان چھڑانے اور حقائق کاسامنا کرنے کا وقت آچکا ہے۔