مزاحمتی شاعری کا زوال

June 04, 2023

ہم اہل ِ قلم کی برادری صرف اکیلگی میں رچے بسے افراد کا مجموعہ نہیں۔تر دماغوں اوردھڑکتے دلوں میں جودرد کا رشتہ ہوتا ہے وہ انہیں صرف آپس میں ہی نہیں،اپنے مظلوم لوگوں سے اوراپنی زخم زخم زمین سے جوڑ کر رکھتا ہے۔سچائی کی روشنی سے باندھ کر رکھتا ہے۔حق کی خوشبوسے لپیٹ کر رکھتا ہے۔سو دھرتی سے جڑے ہوئے ادیب شاعرجو بھی لکھتے ہیں۔ انسانی ترقی، انسانی ہمدردی اور انسانی جمال کیلئے لکھتے ہیں۔ہر ظلم پر آواز اٹھاتے ہیں۔ہر چیخ کونظم کا پیراہن دیتے ہیں۔آنسوئوں کی ندیوں کو افسانہ و ناول میں بدلتے ہیں۔آہوں اور کراہوں کو کہیںتِیور توکہیں کومل سروں سے آشنا کرتے ہیں۔احتجاج ان کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے اور مزاحتمی ادب جنم لیتا ہے۔

مزاحتمی ادب کی تحریک فلسفہ اشراکیت کے غلبے کے بعد واضح ترین انداز میں دکھائی دیتی ہے۔انقلاب روس کے بعددنیا نے دیکھا کہ محکوم طبقے جہاں کہیں بھی سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکرائے ۔ وہیں کاغذوں پر لفظوں سے بنتی ہوئی تصویریں چیخنے اور کراہنے لگیں۔احتجاج کیلئے قلم کوہتھیار بنا لیا گیا۔ ایسا ادب تخلیق ہونے لگا جس سے ظلمتِ شب کی فصیلوں میں دراڑیں پڑنے لگیں۔ مظلوم طبقوں کے ساتھ قلمکاربھی لہومیں انگلیاں ڈبو کر سڑکوں پرنکل آئے اور شہرپناہ کی دیواروں پرسچ لکھا جانے لگا

قلم کے ٹکڑے سڑک پر بکھیر دینے تھے

کسی زباں میں ہمیں احتجاج کرنا تھا

کہیں سے احتجاج کی آواز یوں آئی

یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے

لکھے کو آگ لگا دی، قلم کو توڑ دیا

جہاں تک پاکستان کی بات ہے توکہتے ہیں نواز شریف کی اے پی سی میں احمد فراز نے اپنی مشہور نظم محاصرہ سنائی، جو انہوں نے جنرل ضیاء کے دورِ حکومت میں لکھی تھی۔پاکستان میں مزاحمتی شاعری مارشل لا کے ادوار میں تخلیق ہوئی۔صدر ایوب کے دور سے مزاحمتی شاعری کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر تقریباً ہر دور میں شاعر حرف ِ حق لکھتے رہے۔اس مزاحمتی شاعری میں بہت سی ایسی شاعری بھی موجود ہے جن کے شاعروں کا کچھ پتہ نہیں۔ مثال کے طور پر

ہر ایک گلی سے بوٹوں کی آواز سنائی دیتی ہے

ہر اک کمرہ زنداں ہے ہر بستی جیل دکھائی دیتی ہے

سید نصیر شاہ کی ایک نظم کی آخری تین مصرعے یاد آرہے ہیں

آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں

میرا گھر ہے میری بیوی ہے مرے بچے ہیں

ساغر ِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں

گزشتہ دنوں پی ٹی آئی چھوڑنے کی پریس کانفرنسیں کرنے والوں میں سے اکثر کا لہجہ وقت کے انہی سقراطوں جیساہی تھاکہ ”نہیں نہیں ہم سیاست دان نہیں“۔ حقیقی آزادی کی جنگ میں ایسی مشکلیں تو آتی ہیں مگر پی ٹی آئی میں جو لوگ اس کی مقبولیت دیکھ کرحصول ِ اقتدار کیلئے شامل ہوئے تھے۔انہوں نے جانا ہی تھا۔جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی۔

ہاں تو بات ہورہی تھی مزاحمتی ادب کی۔زیادہ ترمزاحمتی نظمیں صدرایوب اور ضیا الحق کے ادوار میں لکھی گئیں ۔دور ِ ایوب میں حبیب جالب کی نظم معروف ہوئی۔

بیس روپے من آٹا اور اس پر بھی ہے سناٹا

صدر ایوب زندہ باد

اور ضیا الحق کے دورمیں جالب کایہ شعر بہت مشہور ہوا

ڈرتے ہیں بندوقوں والے

ایک نہتی لڑکی سے

جمہوری ادوار میں بھی شاعر مزاحتمی ادب تخلیق کرتے رہے ہیں۔ بھٹو کے دور میں استاد دامن کی ایک پنجابی نظم بہت مشہور ہوئی تھی

کدی شملے جاناایں کدی مری جانا ایں

کیہ کری جانا ایں کیہ کری جانا ایں

محترمہ بینظیرکے دور میں حبیب جالب نے کہا تھا

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

پرویز مشرف کے دور میں کوئی ایسی بڑی نظم سامنے نہیں آئی جسے یاد رکھا جاسکے۔احمد فرازبھی یہ کہہ کر وہی پرانی نظمیں سناتے رہتے تھے کہ نہ ہمارے حالات بدلتے ہیں اور نہ ہماری نظمیں پرانی ہوئیں۔ پاکستان کے زیادہ تر آزاد خیال ادیبوں نے پرویز مشرف کو اپنے قریب محسوس کیا تھاحتیٰ کہ احمد فراز جیسے سرپھرےشاعر نے بھی پرویز مشرف کے ہاتھ سے تمغہ امتیاز لے لیا تھامگر بعد میںانہیں تمغہ لوٹانے کا اعلان کرنا پڑا۔یہ بھی بہت بڑی با ت ہے وگرنہ ہمیشہ شاعروں اور ادیبوں کا ایک گروہ کاسہ سر لے کر درِبوجہل پر ایستادہ رہا ہے۔پرویز مشرف کے دور میں کہا گیا صرف ایک شعر میری یادداشت میں محفوظ ہے۔

عالمی بینک کے اک وفد کی تجویز پہ وہ

بم گراتا رہا خود اپنی ہی دہلیز پہ وہ

اس کے بعد کے حکمرانوں کے متعلق شاید ہی کسی شاعر نے کچھ کہا ہو۔شاعرِ لاہورشعیب بن عزیز کا ایک شعر ملتا ہے

بینر پہ لکھے حرف ِ خوشامد پہ جو خوش ہے

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

مزاحمتی شاعری کی آخری کتاب ہمیں فرحت عباس شاہ کی نظر آتی ہے ”مزاحمت کریں گے ہم“۔فرحت عباس شاہ کی بہت سی انقلابی نظمیں پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئیں مگر مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ احتجاج کی صرف وہی ایک اکیلی آواز سنائی دے رہی ہے وگرنہ ہر طرف سناٹوں کے ہجوم ہیں۔کچھ اور نوجوان شاعر وں کی آوازیں ذرا ذرا سنائی دی ہیں مگر کسی اہم شاعر کی طرف سے کوئی نظم کوئی شعر ،کچھ بھی نہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ پھر وہی موسم آرہا ہے جس کے بارے میں میر تقی میر نے کہا تھا

موسم آیا تو نخل دارپہ میر

سرِ منصور ہی بار آیا