کھربوں روپے کی ٹیکس چوری

June 09, 2023

ریسرچ ادارے ایسپاس کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف معاشی ماہرین کیلئے چشم کشا ہے کہ ملک میں صرف رئیل سٹیٹ، سگریٹ ، چائے ، ادویات، ٹائر اور لبریکنٹس کے شعبوں میں سالانہ 9کھرب 56 ارب روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے جس پر قابو پا لیا جائے تو تعلیم کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ دس گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ مہمند ڈیم بنایا جا سکتا ہے۔ پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگرام کی کل لاگت پوری کی جا سکتی ہے۔ ٹیکس چوری کی وجوہات میں کمزور قانون سازی ، پراپرٹی کی خریداری میں ہیرا پھیری اور نقد لین دین جیسی خرابیاں شامل ہیں جنہیں دور کرنے کی کوششیں رشوت اور بدعنوانی کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ وفاقی وزیر مملکت اشفاق تولہ کا کہنا ہے کہ سمگلنگ اور ٹیکس چوری کے خاتمے کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں لیکن ان پر قابو پانے کیلئے جس موثر خودکار نظام اور نچلی سطح پر مالیاتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کے فقدان کی وجہ سے ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے۔رئیل سٹیٹ میں دستاویزات اور قوانین کے نفاذ میں حائل رکاوٹیں دور نہیں کی جا سکیں۔ ٹائروں کی مارکیٹ کا 65 فیصد حصہ سمگل شدہ غیر قانونی ٹائروں پر مشتمل ہے۔ صرف 20فیصد ٹائر مقامی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ باقی غیر قانونی طور پر درآمد یا سمگل ہو رہے ہیں۔چائے کے شعبے میں ٹیکس چوری 45فیصد ہے۔ ادویات کے سیکٹر میں سالانہ 60سے 65 فیصد ٹیکس چوری سے قومی خزانے کو نقصان ہو رہا ہے۔ اگر قوانین پر سختی سے عمل کرایا جائے تو پاکستان آئی ایم ایف اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے چنگل اور غیر ملکی قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے نجات حاصل کر سکتا ہے اس وقت ملک جس معاشی بحران سے دوچار ہے اس پر قابو پانے کا یہی موثر حل ہے حکومت کو ٹیکسوں، بجلی گیس اور دوسرے شعبوں میں کھربوں روپے کی چوری پر قابو پانے کیلئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998