9اگست 2023ء کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نگران سیٹ اپ میں تاخیر اورالیکشن کمیشن کی طرف سے نئی ووٹر لسٹوں کی تیاری کے اعلان پر بعض حلقوں نے بے چینی کا اظہار کرتے ہوئے عام انتخابات مئی میں منعقد کرائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اس حوالے سے ایک حوصلہ افزا پیشرفت سامنے آئی ہے،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جمعرات کے روز منعقدہ اپنے ایک اہم اجلاس میں جو خاکہ تیار کیا ہے، اس کے مطابق 27ستمبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرستوں کا اجر اکردیا جائے گا۔ اس کے اگلے دنوں میں ان پر اعتراضات اور تجاویز کی سماعت کے مرحلے سے گزرتے ہوئے 30نومبر کو ووٹروں کی حتمی فہرست شائع کردی جائے گی۔ اسطرح 54روز بعد جنوری کے آخر میں انتخابات کروا دیئے جائیں گے۔ چونکہ الیکشن کمیشن نے 54روز کا بلحاظ گنتی تعین کیا ہے، اس رو سے انتخابات کی متعلقہ تاریخ 23جنوری 2024بنتی ہے۔الیکشن کمیشن کے اعلان کے ساتھ ہی جہاں نگران حکومت کی مدت کو غیرمعمولی طول دینے جیسی افواہیں دم توڑ گئی ہیں، وہیں سیاسی، سماجی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا الیکشن کمیشن کا یہ اعلان آئین سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ سامنے آنے والے خدشات کی وجوہات میں احتساب عدالتوں کا دوبارہ متحرک ہونا، سیاستدانوں کے سابقہ کیسوں کا دوبارہ کھلنا اور ماضی کی طرح ان کا احتسابی عمل سے گزرنا شامل ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابات کی تاریخ سے متعلق الیکشن کمیشن کے مبہم اعلان نے انکے انعقاد کو دھندلا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پروسیجر اینڈ پریکٹس ایکٹ اپیل کیس میں الیکشن کا معاملہ طول پکڑ سکتا ہے۔تاہم دوسرے زاویے سے پارلیمنٹ سے ایکٹ کی منظوری کی روشنی میں انتخابات جنوری 2024ء کے اواخر میں عین ممکن ہیں۔ ذرائع نے یاد دلایا کہ الیکشن کمیشن کے مختصر اعلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں کیونکہ یہ آئین اور انتخابات کے شیڈول کا حوالہ دیئے بغیر کیا گیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں نے انتخابات جنوری کے آخر میں کرائے جانے کے اعلان پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کو آئین سے ماورا قرار دیتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی 90روز میں انتخابات منعقد کرانے کا تقاضا کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعلان سے غیر یقینی کی صورتحال ختم ہو جائیگی۔ مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اس اعلان کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تیاری کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے الیکشن کمیشن کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اگر 2018ءکی تاریخ دہرائی گئی تو سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ عام انتخابات کیلئے حالات سازگار ہونے کے لحاظ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہوئے مقررہ وقت کے مطابق تحلیل ہونا اور نگران سیٹ اپ کا قیام عمل میں آنا بنیادی عمل ہے۔ ماضی میں یہ ہوتا آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسے مواقع پر جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع کردیتی ہیں اور عوامی نمائندے اپنے حلقوں میں موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی گاڑی اپنے قیام کے بہت بعد اور بمشکل پٹڑی پر چڑھی ہے۔جس کی رو سے 2008، 2013،2018 اور اب 2023ءکے انتخابات ہورہے ہیں۔الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹوں کی تیاری اور دیگر انتظامات کی روشنی میں انتخابات کرانےکا جو اعلان کیا وہ اپنی جگہ بجا ہے تاہم یہ بھی وقت کا تقاضا ہے کہ مجوزہ شیڈول کو حتمی شکل دیتے ہوئے عوام اور سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی رہی سہی بے چینی اور وسوسے بھی دور کئے جائیں۔