عزت ایسے نہیں ملتی

September 26, 2023

کبھی پی آئی اے کی پروازیں برطانیہ، یورپ اور امریکہ سمیت کئی ملکوں میں جایا کرتی تھیں مگر اب یہ داستان تاریخ کا حصہ ہے بلکہ پچھلے دنوں کچھ خلیجی ممالک میں پی آئی اے کے جہازوں کے فیول کا مسئلہ بنا رہا۔ ایک لمحے کے لئے سوچئے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ 16 مہینوں کی پی ڈی ایم حکومت نے جہاں لوگوں کی زندگیوں کو تنگ کیا وہاں بیرونی دنیا میں ہماری عزت خاک میں مل گئی۔ دنیا پاسپورٹ کو عزت کی علامت سمجھتی ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کی قدر صرف شام اور افغانستان سے زیادہ ہے۔ مجھے اپنے پاسپورٹ کی عزت کا احساس ہیتھرو ائرپورٹ پر ہوا جب جہاز سے اترنے والے مسافروں سے کہا گیا کہ برطانیہ، امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، سنگاپور اور کینیڈا کا پاسپورٹ رکھنے والے لائن سے باہر ہو جائیں، باقی لوگ طولانی قطار میں کھڑے رہیں۔ مجھے سنگاپور کے پاسپورٹ پر حیرت ہوئی کیونکہ یہ ملک ہمارے پانچ سالہ منصوبے سے بنا تھا۔ سنگاپور آگے نکل گیا اور ہم کہیں دور پیچھے رہ گئے۔ برطانیہ میں پہلا دن چلتنم میں گزرا، یہ گلاسٹر شائر کا چھوٹا سا سر سبز شہر ہے، اس میں امیر ترین لوگ رہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق قریباً چار ہزار ملینیئر اس شہر کے باسی ہیں۔ چلتنم سے لندن پہنچا تو اتوار کے باوجود مصروفیت رہی۔ لندن پہنچتے ہی نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں میرے ساتھ لندن کے باسی، کئی کتابوں کے مصنف افضل چوہدری بھی تھے۔ ہوٹل سے نکلے تو ملک احمد خان سے ٹاکرا ہوا۔ اس روز سینٹرل لندن کی عمارتوں سے جھلکتی ہوئی تاریخ پر غور کرنے کا موقع ملا، پھر ہم دریائے ٹیمز کے تاریخی لندن برج پر گئے۔ اس کے بعد اجوے روڈ پر لبنانی ریسٹورنٹ پر کھانا تناول کر کے غزالی فاؤنڈیشن کی تقریب میں شرکت کی، اس فاؤنڈیشن نے پاکستان کے کئی دیہات میں ا سکول قائم کر رکھے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر یہ سفر نصیب لندن کینٹ کی ایک عمارت کی بالائی منزل پر گہری سوچوں میں گم یہ سطور رقم کر رہا ہے۔ مجھے یہاں کئی مرتبہ کرنسی کی مضبوطی اور کمزوری کا احساس ہوا۔ ایک ا سٹور سے چند چیزیں لیں، بل صرف 18 پاؤنڈ بنا۔ اگر یہی چیزیں لاہور، کراچی یا اسلام آباد سے خریدتا تو بل بیس بائیس ہزار بن جاتا۔ آخر ان کی کرنسی مضبوط اور ہماری کمزور کیوں ہے؟ ان کے پاس نہ تو فصلیں ہیں نہ پھل اور نہ ہی معدنی ذخائر، کرنسی پھر بھی اتنی مضبوط؟ جب اس سوال نے بارہا ڈسا تو جواب آیا کہ یہ ایشیا اور افریقہ کے ٹھگوں کی جنت ہے۔ ایشیااور افریقہ کے کئی ملکوں کے حکمراں اور اعلیٰ حکومتی عہدیدار اپنے ملکوں کو لوٹ کر دولت برطانیہ منتقل کرتے ہیں۔ مجھے خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے بہت دکھ ہوا کہ پاکستان کے کئی حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کی یہاں وسیع جائیدادیں ہیں، صرف جائیدادیں نہیں، لمبے چوڑے کاروبار ہیں۔ یہ سب کچھ لوٹ مار کے پیسوں سے بنا ہے۔ شاید کم لوگوں کو پتہ ہو کہ دنیا بھر میں ہونے والی منی لانڈرنگ میں لندن پہلے نمبر پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ برطانیہ ایسے لوگوں کو کیوں قبول کرتا ہے؟ ظاہر ہے دولت لانے والوں کو کون ٹھکراتا ہے اور جو خاندان اپنے کاروبار سے 18ملین پاؤنڈ ٹیکس ادا کرے گا، برطانیہ والے اس سے کیوں نالاں ہوں گے۔ افسوس! پاکستان کا نظام ملکی دولت لوٹنے والوں کو نہ روک سکا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کا نظام منی لانڈرنگ کو بھی نہ روک سکا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ سے 1992ء میں ایک بل منظور ہوا جس کے تحت ڈالر باہر لے جانے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی، یہ دھندہ 26 سال چلتا رہا۔ اس دھندے نے پاکستانی معیشت کو نچوڑ کے رکھ دیا۔ حکمراں تو طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کی کرپشن کی داستانیں طولانی ہیں۔ پاکستان میں تو چھوٹے موٹے افسران بھی ایسی کرپشن کرتے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ مثلاً لاہور میں ایک ڈی ایس پی مظہر اقبال کروڑوں کی منشیات فروشی کے دھندے میں ملوث پایا گیا۔ حیرت ہے منشیات کی سپلائی کے لئے ڈرون استعمال ہوتا رہا۔ آزاد کشمیر کے ڈی جی ہیلتھ کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن نے مقدمہ درج کر رکھا ہے، ان کے ساتھ طاہر عزیز اور سعید خلیل بھی ملوث ہیں مگر حیرت ہے کہ سردار آفتاب ہنوز ڈی جی ہیلتھ ہیں۔ اس طرح کی کئی اور مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر شاید میرے پیارے پاکستان میں کرپشن پر سزا دینے کا رواج ہی نہیں۔ اگر میرے پیارے دیس میں لوٹ مار پر سزا دی جاتی تو ہماری معیشت ہچکولے نہ کھاتی، کرپشن رک جاتی تو کرنسی مضبوط ہوتی اور پھر ہمارے پاسپورٹ کی عزت بھی ہوتی، جس طرح ہم عزت کمانے نکلے ہیں ایسے عزت نہیں ملتی۔ عزت شفاف نظام دلواتا ہے۔ چوروں کی حکمرانی میں ملکوں کی عزت نہیں ہوتی، لوٹ مار کی حکمرانی میں ہمیں عزت کیسے ملے گی۔ کرپشن کی اندھیر نگری میں دولت کی دوڑ دیکھ کر اقبال یاد آتا ہے کہ کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟