ہم سب کے گریباں چاک ہیں

September 26, 2023

مختلف عقائد سے وابستہ لوگوں کا ایک ساتھ امن و امان سے رہنا قابل ستائش عمل ہے۔ جب وہ افہام و تفہیم کے ساتھ ایک ہی ملک، ایک ہی معاشرے، ایک ہی محلے میں ایک دوسرے کے پڑوسی بن کر رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کےغم و خوشی میں شامل ہوتے ہیں۔ تب ان کو ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے رسم و رواج ، تہذیب و ثقافت ، عادات اور اطوار سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے وجود میں جھانک کر دیکھ سکتےہیں۔ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایسےمیں وہ ملتا جلتا ادب اور آرٹ تخلیق کرتے ہیں۔ ان کے اظہار میں ایک جیسا پن دکھائی دیتا ہے۔ پچھلی کتھا میں ہم نے ان کی ایک کہانی کا تجزیہ کیا تھا۔ وہ کہانی صدیوں سے لکھی جا رہی ہے۔ اور صدیوں تک لکھی جائے گی۔ ایک عورت کا بااثر کے ہاتھوں اغوا اوراس کو جابرکی قید سے چھڑانے کی کاوشوں کی کہانی ہے۔ ہم نے اس کہانی کے اینٹی کلائمیکسanticlimax کا جائزہ لیا تھا۔ لگتاہے کہ جائزے میں کچھ اہم رہ گیا تھا۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود اینٹی کلائمیکس کو واضح الفاظ میں مسترد نہیں کیا گیا ہے۔ سوچنے والوں کے تحفظات ہیں۔ اس نوعیت کی کہانیوں کو مقدس ہونے کی سند مل چکی ہے۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایسی کہانیوں کے نامعقول اینٹی کلائمیکس پر لکھنے والوں نے اجتناب کیا ہے۔ آگ اپنی اچھائیو ں اور برائیوں میں آگ ہی کہلانے میں آتی ہے ۔ آگ کا بنیادی کام ہے جلانا۔ طے ہے کہ آگ سوچ نہیں سکتی، آگ پرکھ نہیں سکتی۔ آگ جب بھڑک اٹھتی ہے تب نیکو کار اور بدکار میں تمیز نہیں کرتی۔ آگ چھوٹے بڑے کا لحاظ نہیں کرتی۔ ایسے میں آگ سے یہ امید رکھنا کہ آگ گنہگار اور بےگناہ میں تمیز کرسکتی ہے مضحکہ خیز ہے۔ ایسی سوچ انسانی ذہن کے زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔ معصومیت کی سب سے موثر مثال ایک ڈیڑھ سال کا بچہ ہوتا ہے۔ جس نے حال ہی میں چلنا سیکھا ہے۔ اس معصوم بچے کو اگر دہکتے ہوئے انگاروں پرچلنے کے لئے چھوڑ دیا جائے ، تو کیا آگ محض اس لئے بچے کو نہیں جلائے گی کہ بچہ معصوم اور بے گناہ ہے؟ کیا آگ سوچ سکتی ہے؟ کیا آگ کے پاس پرکھنے کیلئے اپنے پیمانے ہیں؟ اس نوعیت کی کہانیاں انسان کے اپنے کھوکھلے پن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سوچ، خاص طور پر تقابلی سوچ صرف انسان کا خصوصی وصف ہے۔

مختلف عقیدوں سے وابستہ لوگوں کا ایک ملک اور ایک معاشرے میں رہنا، ایک دوسرے کو سہنا اور سمجھنا، ایک دوسرے کا احترام کرنا دوررس اچھے نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔ ایک دوسرے کو تاراج کرنے کی ترکیبیں نہیں سوچتے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں بنتے۔ ان کے میل جول سے تخلیقی عمل کو جلا نصیب ہوتی ہے ۔ یہ وہی باتیں ہیں جو میں آپ سے پچھلی کتھا میں بھی کر چکا ہوں۔ اگر یوں کہوں کہ میں درگزر، افہام و تفہیم ، برداشت ، باہمی بھائی چارے اور احترام آدمیت کا پر چارک ہوں، تو زیادہ مناسب لگے گا۔ ایک صوفی دنیا بھر کے عقیدوں کا احترام کرتا ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے۔ محبت کے بیج بو کر محبت کی لہلہاتی فصلیں دیکھنے سے زیادہ موہ لینے والا نتیجہ اورکیا ہو سکتا ہے؟ دنیا نے بہت سی جنگیں دیکھ لی ہیں۔ اب ہم بموں کی بارش دیکھنا نہیں چاہتے۔

بات ہو رہی تھی ملتی جلتی کہانیوں کی، جو مختلف معاشروں میں لکھی جاتی ہیں۔ مگر ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ایسی کہانیوں کو عزت اور احترام سے دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ایسے عقیدت مند بھی آپ کو ملیں گے جو ان کہانیوں کی پرستش کرتے ہیں ۔ اس نوعیت کی سوچ رکھنے والے لوگ قطعی طور پر ایک عقیدے سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق مختلف عقیدوں سے ہوتا ہے۔ ان قصے کہانیوں میں مقدس مرکزی کردارجب کسی پتھر یا پہاڑ پر پیر رکھتے ہیں تب پتھر پر اپنے پیروں کے نشان یعنی چھاپ چھوڑ دیتے ہیں۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ پتھر پر پیروں کےنشان کو وقت کی قید سے ماورا بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے نشان لازمان کہلوانے میں آتے ہیں۔ Timeless۔ ایک لازمان کہانی میں ایک منفی کردار ایک اللہ لوک پر بہت بڑا پتھر اوپر سے گراتا ہے۔ اس وقت اللہ لوک اپنےخالق اپنے مالک کی بندگی میں کھویا ہوا تھا۔ معتقد دوڑتے ہوئے ان کے پاس گئے۔ انہیں آگاہ کیا کہ ایک منفی کردار نے آپ پر بہت بڑا پتھر پھینکا ہے۔ اللہ لوک نے ہاتھ بلند کیا اور عین اس وقت ان پر گرنےوالے پتھر کو آہنی ہتھیلی سے روکا۔ ہاتھ کے چھوتے ہی پتھر اپنی جگہ رک گیا۔ بعد میں معتقدوں نے پتھر پر اللہ لوک کے ہاتھ کا نشان دیکھا۔ وہ پتھر اورپتھرپر ہاتھ کا نشان مقدس بن چکے ہیں۔ اس نوعیت کی کہانیاں ہر بولی بولنے والوں کے معاشرے میں آپ کو سننے پڑھنے اور دیکھنے کیلئے ملیں گی۔ ان کہانیوں کو آپ کسی ایک عقیدہ، کسی ایک کلچر سےوابستہ نہیں کر سکتے۔ ایسی کہانیاں تقریباً تمام تہذیبوں، تمدنوں، ثقافتوں میں موجود ملیںگی ۔ کئی معاشروں میں ان کہانیوں کو مقدس مانا جاتا ہے۔ ذرا سی گستاخی پر دنگا فساد ہو سکتا ہے۔ دلیلیں اور منطق بے معانی بن جاتے ہیں۔ ایسی کہانیاں گھڑنے والوں سے آپ یہ نہیں پوچھ سکتےکہ پاؤں رکھنے سے اگر پتھر اور پہاڑوں پر ان کے قدموں کے نشان اپنی مستقل چھاپ چھوڑ سکتے ہیں ، تو وہ جب زمین پر چلتے تھے تو کیاکمر تک زمین میں دھنس کر چلتے تھے؟ اس نوعیت کے سوال پوچھ کر دوسرے عقیدے کے پیروکاروں کی دل آزاری کا اختیار آپ کو ملا ہوا نہیں ہے۔اچھے ملک اور معاشرےکوہمیشہ اچھا رکھنے کیلئے آپ کو ، بلکہ ہم سب کو بنیادی باتیں بھولنا نہیں چاہئیں۔ دنیا بھر کے لوگ مختلف عقائد میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے رسم و رواج کا لازماً احترام کرنا ہے۔کئی ایک ملک اور معاشروں میں ایک مقدس ہستی راکشش سے لڑتے ہوئے اس پر کاری وار کرتا ہے، تب راکشش کے ساتھ پہاڑ کو بھی کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ چار فٹ کی تلوار سے ایک پہاڑ کو دو حصوں میں کاٹ کے رکھ دینا امکان سے باہر لگتا ہے۔ مگر، اس روایت کا تمسخر اڑانے کا اختیار آپکے پاس نہیں ہے۔ مت بھولئے کہ ہم سب کے گریباں چاک ہیں۔