پاکستان کے معاشی طور پر توانا نہ ہو پانے کی ایک بڑی وجہ ٹیکس نیٹ کا محدود ہونا ہے۔ ٹیکس دینے والے کم ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو اپنے اخراجات اور ترقیاتی کاموں کے لیے ضرورت کے مطابق وسائل میسر نہیں آتے۔جن ملکوں کی ترقی کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے ان کے میں لوگ نہ صرف یہ کہ ٹیکس کو فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی کو ٹیکس کے دائرے میں رکھا جاتا ہے جس کی وجہ بعض مخصوص طبقات پر دباؤ نہیں پڑتا اور وسائل کی قلت بھی نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں یہ ایک اچھی خبر ہے کہ پاکستان میں صورت حال کو بہتر بنانے اور ایف بی آر کا 92 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے نگراں حکومت پرچون، زراعت اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرز پر ٹیکس عائد کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ منقولہ اثاثوں پر دولت ٹیکس لگانے کی تجویز بھی زیر غورہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سردست معاشی اعتبار سے اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،ان حالات میں حکومت کے پاس معیشت کو آکسیجن فراہم کرنے کے چاربڑے ذرائع ہیں،جن میں صنعت،زراعت،بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زراور سب بڑھ کر مختلف قسم کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقوم ہوتی ہیں۔پرچون، زراعت اور ریئل اسٹیٹ سیکٹرز پر ٹیکس کے نفاذ سے قومی خزانے کو یقینا خطیر مالی وسائل حاصل ہوسکتے ہیں۔ نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے تنخواہ یافتہ طبقے پر عائد ٹیکس میں بھی کمی ممکن ہوگی جو پورا ٹیکس دینے والا ملک کا واحد طبقہ ہے لیکن سب سے زیادہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ٹیکس کلچر کے فروغ کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح ٹیکس دینے والوں کو سہولتوں کی فراہمی بھی ضروری ہے اور یہ اطمینان بھی کہ ان کی ٹیکس کی رقوم کو درست طور پر قومی اور عوامی مفاد میں استعمال کیا جائے گا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998