بلیم گیم

February 13, 2014

علم کی سب سے بڑی دشمن ،جہالت نہیں بلکہ یہ زُعم اور خوش فہمی کہ ’’ سب معلوم ہے ‘‘ ۔ اشرافیہ بے راہرو،رہزن اور قوم بھٹک چکی۔ 2007پاکستان کی تاریخ کا اندوہناک سال، این آراو جیسی شرمناک دستاویز وجود میں آئی، عدلیہ پامال، چیف جسٹس معزول بعد ازاں پابند سلاسل ، لال مسجد مکینوں سمیت زمین بوس ،نواز شریف کی دیس بدری ، ایمرجنسی ،عدلیہ دوبارہ نظر بند، بے نظیر پر بھیانک حملہ جبکہ سال بے نظیر کے قتل پرمنتج ہوا، کیا ہی خونخواراوربھیانک سال۔دارالخلافہ میں لال مسجد پر توپوں اور ہیلی کاپٹروں سے اٹیک خصوصی اہمیت کا حامل کہ واقعہ نے وطنِ عزیز کو آسمان چھوتی آگ میں دھکیل دیا، تحریک ِ طالبان وجود میں آئی۔ آپریشن جوہو کے رہا، آج تک اس کاخمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آخری چند ہفتوں کے ٹاک شو ، میڈیا فوٹیج دیکھیں ،آج سے موازانہ کریں،یکساں دلائل، یکساں مطالبے۔لال مسجد خودکش حملہ آوروں، القاعدہ ، طالبان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا؟جھوٹ پر جھوٹ کہ مسجد اسلحہ خانہ ، بارود گھر، راکٹ لانچر لینڈ مائنزکا ڈپو بن چکی ۔عبدالرشید غازی کی طرف سے ملک میں نفاذِشریعت کے مطالبے کو بغاوت کا درجہ ملا ۔ جاہل دانشوروں ، نام نہاد لبرلز کی ایک ہی رٹ کہ آپریشن واحد آپشن ، مذاکراتی ٹیم میں چوہدری شجاعت سب سے نمایاں اور موثر عبدالرشید غازی نے سات رکنی علماء کمیٹی کے ذریعے جومثبت پیغام بھیجا اس کو خاطر میں نہ لایا گیا۔
چوہدری شجاعت نے قومی سطح پربذریعہ لائیو پریس کانفرنس فرمادیا کہ حکومتی رویہ میں لچک کے باوجود لال مسجد انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا مطلب مذاکرات ناکام اور آپریشن ناگریز۔
علماء کمیٹی کا موقف یکسر مختلف کہ حکومت سنجیدہ نہیں،حکومتی سنجیدگی کا عالم کہ وزیراعظم شوکت عزیزآپریشن کی رات آئس کریم کھانے میں مصروف رہے ،مذاکرات تضیع اوقات اوربلیم گیم موقف کے لیے ہمدردڈھونڈناتھا۔ 10جولائی 2007منگل کاابھرتا سورج خونچکاںداستاں رقم کررہا تھا۔ 4:10بجے سے آپریشن شروع ہوا۔ گن شپ ہیلی کاپٹر نے 15منٹ میں 70گولے مسجدکے مختصر رقبہ پر ایسے داغے کہ چند منٹوں میں کھنڈرات کا منظر، اور مکین زندہ درگور۔ اگلے 48 گھنٹوں تک ساری ریاستی مشینری ملبہ اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں مصروف رہی۔ معاملہ فہمی کے لیے یہ تھا، جنرل مشرف کا Quick Fix ۔ 11 جولائی کو جارج ڈبلیو بش برطانیہ، آسٹریلیا ، انڈیااور ڈنمارک نے صدر مشرف کے اس کارنامے اور کوشش کوانتہا پسندوں اور دہشت گردی کی جنگ میں اہم پیش رفت قرار دیااور جمہوری اقدار کی حفاظت میں لازوال خدمت سمجھی گئی۔
وطن ِ عزیزآج بھی سانحہ کی گرفت میں۔اصل اثرات ق لیگ کی سیاست پرکہ عوام الناس چمٹے سے اٹھانے پربھی انکاری ۔ حقارت اور نفرت مقدر ایسے بنی کہ سیاست کے ڈسٹ بن میں بھی جگہ نہ ملی۔مزیدتحریک ِ طالبان وجود میں آئی،دہشت گردی اور انتہا پسندی ملک کے کونے کونے میں سرایت کر گئی ،نئے عفریت نے جنم لیا،’’دریا کے پار ایک اور دریا‘‘۔نئے عفریت سے مذاکرات شروع ، آخری خبریں آنے تک طالبان نے مایوس نہیں کیا ،تادمِ تحریر تفصیلات سامنے نہیں ۔ خدشہ کہ مذاکرات فقط جھانسہ اوربلیم گیم شروع ہونے کو۔محترم وزیراعظم ق لیگ کا حشر سامنے رکھیں ۔پچھلے ہفتے آپ کی گفتگو ذومعنی کہ میڈیا اورقوم کو اعتماد میں رکھیں گے ،چہ معنی۔اعتماد کے لیے میڈیا نہیں طالبان کو سامنے رکھیں۔
پڑوسی ملک ہی کی ایک مثال،جب بھنڈراںوالا اور دیگر سکھوں نے اپنے تشخص کو بچانے کے لیے احتجاج کی راہ اپنائی ۔اندرا گاندھی نے فوج کو حکم دیا کہ گولڈن ٹیمپل، جو سکھوں کی عبادت گاہ ، مکینوں سمیت تہس نہس کردو۔ مغربی محاذ پر پاکستان کے خلاف تعینات ساڈھے تین لاکھ فوج کے کمانڈر جنرل ایس کے سنہا احکامات کی پیروی سے پہلے اندرا گاندھی سے ملے تو نقشہ باندھا کہ میری فوج ٹینکوں اور بھاری اسلحہ سے لیس ، پاکستان کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے ہر وقت مستعد،ایسی فائر پاور کسی طور سویلین شورش سے نبٹنے کے لیے نہیں۔ 90ہزار سکھ فوج کا حصہ، مورال پر اثر پڑنے کا امکان ،جبکہ پاکستان کے ساتھ لڑنے میں استطاعت مجروح ہوگی علاوہ ازیں سکھوںکے مطالبات آسانی سے مانے جاسکتے ہیں۔مطالبات تھے کیا؟ گولڈن ٹیمپل کے چند گز کے فاصلے پر تمباکو نوشی اور خرید وفروخت پر پابندی،’’گوربانی‘‘ کو گولڈن ٹیمپل سے براہ راست آل انڈیا ریڈیو سے نشرکیا جائے،امرتسر کو انڈیا کے دیگر شہروں سے ایکسپریس ٹرین کے ذریعے ملایا جائے ،پچھلے سارے عرصے میں سیکورٹی فورسز نے جن سکھوں کو قتل کیا اس کا معاوضہ اور جو سکھ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہیں ان کو رہاکیا جائے۔
اندراگاندھی کا جواب کہ اگر ہم نے یہ مطالبے مان لیے تو سکھ پھر’’ چاند‘‘ مانگیںگے ،گولڈن ٹیمپلVatican سٹی قرار پائے گا ،جنرل آپ آپریشن کی تیاری کریں۔ جنرل سنہا جوہندوستانی فوج میں ایک اسٹریٹجسٹ اور سکالر کے طور پر بڑا نام، ایسے آپریشن سے معذرت کرلی۔ جنرل سنہا کومستعفی ہوناپڑا اور اس کی جگہ جنرل سندر جی کو کمانڈ مل گئی ۔ وہی سندر جی جنہوں نے 1986 میں پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے آپریشن ’’براس ٹیک‘‘پلان کیا۔ آپریشن ہوا اور گولڈن ٹیمپل کومکینوں سمیت ٹینکوں سے روند ڈالا گیا۔اما بعد کیا ہوا، اندرا گاندھی قتل ہوئی،سکھوں کی بدترین نسل کشی ہوئی، فوج میں سکھ رجمنٹس ختم ، سکھ آج مسلمانوں کی طرح مشکوک عناصر۔گو ہم تاریخ کے بہت قریب کہ اصل اثرات دیکھ پائیں لیکن خاطر جمع رکھیں اگر آج ہندوستان اور پاکستان آمنے سامنے ہوئے تو سکھ پوری قوت کے ساتھ پاکستان کو کمک فراہم کریں گے۔ بلکہ آج بھی پاکستان کا ’’معلوماتی نظام‘‘ سکھوں کی مرہونِ منت۔میرا اندیشہ کہ ایک دفعہ پھر بلیم گیم شروع ہونے کو اور ہم لال مسجد کی تاریخ دہرانے کو۔
ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کی تلاش میں حکومت سرگرداں، خبر کہ بارہ نام فائنل کر چکی۔ اربابِ حکومت سے گذارش کہ نادرا کی طرح دوسری جگہوں پر کسی پیارے کو نوازنے کی بجائے ،کہ ’’ن لیگ نواز لیگ ہی تو ہے‘‘ ، میرٹ پر فیصلہ کریں ۔ خالص سائنسدان ڈھونڈنا ہوگااور وہ بھی Pure سائنسز کا،ڈاکٹر قدیر اور ڈاکٹر عطاالرحمن کی ٹکرکا۔ کم ازکم یہ فیصلہ قومی مفاد میں کر دیںکہ کل کی جنگ اور ملکی ترقی HEC میں پنہاں۔
زرداری، نوازشریف ، الطاف حسین ، اسفند یار، فضل الرحمان کے اوپر میرا قلم ہمیشہ رواںجبکہ عمران کی حقیقت کو اشکار کرتے ہوئے ہمیشہ دلی تکلیف اورقلق اگرچہ لکھنے کے لیے مواد سب سے زیادہ۔ موصوف اپنی تعریف اور خودنمائی میں بلا جھجھک پیش پیش۔ترس آتا ہے کہ آجکل خودستائی بھی دل سے نہیں نکل پاتی ’’ طالبان نے مجھے کمیٹی پر اس لیے رکھا کہ میں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہوں‘‘آفرین ایسی حالت اور کنفیوژن ،قابل رحم ۔تاثر چارسُو کہ ن لیگ سے مک مکا ہو چکا ، پس پردہ زیرگردش داستاںایسی کہ طبیعت بوجھل ۔ کدھر گئی تحریکِ دھاندلی اور تحریکِ مہنگائی، مُک مکا کی نظر؟
دوسال قبل اخبار میں پہلاکالم لکھنے کی وجوہات آج بھی تروتازہ ،کہ محترم پرویز رشیدنے برادرم ہارون رشید کے خلاف 3اقساط پر مشتمل مضمون جنگ کی زینت بنایا جواب میرے پر لازم کہ ان کے احسانات کے بوجھ تلے PTI دوہری۔ ن لیگ موصوف کو تحریک ِ انصاف کی حمایت پر کڑی سزا دینا چاہتی تھی تاکہ تحریک ِ انصاف اہم کالم نگارسے پوری طرح مستفید نہ ہو سکے چنانچہ ساکھ خراب کرنا آسان نسخہ ۔ عصرِ حاضر کا اہم کالم نگار 17 سال یکسوئی کے ساتھ تن من دھن ، دامے درمے سخنے قدمے تحریکِ انصاف کے شانہ بشانہ۔ بہت سے نامور کالم نگاروں نے ن لیگ کے لیے ایسے ہی رول پر رفعتیں پائیں جبکہ موصوف آج تحریک انصاف کی دشنام طرازی کی زد میں۔یا اللہ یہ کیسے لوگ اورمحسنوںکو کیسا صلہ ؟ شفقت محمود نے ہارون کی تضحیک میں مجموعہ تضادات چھپوایا، عملاََ تحریکِ انصاف کی اپنے اوپر Indictment ۔کیا یہ لمحہ ِ فکریہ نہیں کہ آج تحریک ِ انصاف کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے؟
کڑی بدقسمتی کہ کالم نگاری کے دو(2)دُرشہوارحسن نثار اور ہارون رشید پکے پکائے پھل کی طرح ضرورت کے وقت تحریک ِ انصاف کی جھولی میں تھے ، موصوف کی 17 سالہ خدمات تو خیرہ کن۔جہالت ، کج فہمی،ناشکری ، بے ادبی کی ایسی مثال،ایسی محسن کشی؟ن لیگ کے چہکے ، قہقہے بلند آواز میں جبکہ پورا میڈیا شش وپنج میںکہ تحریک ِ انصاف اپنے خلاف اگلی واردات کونسی کرے گی؟ بلیم گیم ہر سطح پر جاری وساری۔