امن کے لئے لائحہ عمل

February 19, 2014

مغوی ایف سی اہلکاروں کے لرزہ خیز قتل کی وجہ سے حکومت اور طالبان کے مذاکرات اگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تو بند گلی میں ضرور داخل ہو گئے ہیں یہ افسوسناک صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہوئی جب فریقین بظاہر فائر بندی اور قیام امن کے سمجھوتے کے قریب پہنچرہےتھے۔ کالعدم تحریک طالبان نے واقعے کی براہ راست ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس کے ترجمان نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے جائز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مہمند ایجنسی والوں سے پوچھیں گے کہ حقیقت کیا ہے انہوں نے یہ کہہ کر مذاکرات کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیا کہ بد اعتمادی ماحول کو متاثر کر رہی ہے اور اب ہمارے ساتھیوں میں جنگ بندی پر اتفاق نہیں ہو رہا ادھر مہمند ایجنسی کے طالبان رہنما، جو مرکزی شوریٰ کے بھی رکن ہیں، کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ طالبان نے 23 ایف سی اہلکاروں کو ذبح کر کے ان کی تدفین کر دی ہے جو حکومت کی جانب سے 23زیر حراست طالبان کو ہلاک کرنے کا ردعمل ہے سیکورٹی حکام نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان دہشت گردی کی کارروائیوں کے لئے جھوٹے جواز گھڑ رہے ہیں جبکہ ڈائریکٹر جنرل ایف سی خیبر پختونخوا نے اپنے اہلکاروں کے قتل پر وفاقی حکومت سے راست اقدام کی اجازت طلب کر لی ہے وفاقی حکومت نے ابھی تک اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا تاہم قانون کے مطابق معمول کی کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے وزیراعظم میاں نواز شریف نے مغوی اہلکاروں کے قتل کوبہیمانہ جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ایسی کارروائی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ان کی قائم کردہ حکومتی کمیٹی کا یہ نقطہ نظر سامنے آیا ہے کہ مہمند واقعہ کے بعد صورت حال بدل چکی ہے۔ بات چیت اسی صورت میں آگے بڑھ سکتی ہے جب پرتشدد کارروائیاں بند ہوں۔ منگل کے روز طالبان نے پھر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہیں اور جنگ بندی پر اتفاق رائے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ مغوی اہلکاروں کی شہادت کا دکھ پوری قوم نے نہایت شدت سے محسوس کیا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دلگداز واقعے کے بعد مذاکرات کے حق میں اٹھنے والی آوازیں کمزور پڑنے لگی ہیں اور مسئلے کو طاقت کے بل پر حل کرنے کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے یہصورت حال حکومت اور طالبان دونوں کیلئے امن و امان کے حق میں انتہائی سنجیدہ مثبت اور فوری فیصلے کرنے کی متقاضی ہے انہیں مذاکرات کے ذریعے امن کی تلاش کو ایک اور موقع دینا چاہئے کیونکہ جنگ سے مسائل حل کم اور پیدا زیادہ ہوتے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مذاکرات میں موجودہ تعطل ختم کرنے کیلئے طالبان کی طرف سے کوئی مثبت پیش رفت ضروری ہے لیکن اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ وقت گزرنےکیساتھ ان کا رویہ سخت ہوتا جا رہا ہے وہ مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں اپنی قائم کردہ کمیٹی کی بات بھی نہیں سنتے جس سے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ کھلتا مخلوق خدا کو خونریزی سے بچانے کیلئے حکومت کے ساتھ ان پر بھی برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے مذاکرات کا عمل خونریزی بند کرنےکیلئے شروع ہوا تھا اور اس میں ان کی شرکت اسی مقصد کیلئے تھی ایک روز قبل یہ اطلاع بھی آئی تھی کہ انہوں نے سیز فائر سے اتفاق کر لیا ہے لیکن اگلے ہی روز مہمند ایجنسی والا واقعہ منظر عام پر آ گیا جس سے صورت حال بدل گئی۔ حکومت پہلے بھی سیز فائر پر ہی زور دیتی تھی اور اب بھی دے رہی ہے لیکن طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ ساتھیوں میں سیز فائر پر اتفاق نہیں ہو رہا حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کو موجودہ صورت حال میں زیادہ فعال ہونا چاہئے اور ان اسباب کا جائزہ لینا چاہئے جو جنگ بندی کی راہ میں حائل ہیں اور ان کے تدارک کی تدابیر سوچنی چاہئیں۔ پے در پے رونما ہونے والے افسوسناک واقعات سے تو یہی لگتا ہے کہ ہم صلح صفائی کی بجائے لڑائی اور محاذ آرائی کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن یہ تباہی کا راستہ ہے تمام تر مشکلات رکاوٹوں اور تلخیوں کے باوجود اس سے بچنے کی ضرورت ہے اور بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں صلح جوئی کے جذبے بے کام لیا جائے اس طرح کے حالات میں مذاکرات ہی دنیا کا معمول ہیں اور ملک و قوم کا مفاد بات چیت سے ہی اختلافات دور کرنے میں ہے یہی امن کا لائحہ عمل ہے اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔

پاک سعودیہ تعاون اور نئے معاہدے
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے تین روزہ دورہ پاکستان کے اختتام پر جاری کئے جانے والے مشترکہ اعلامیئے میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان نہ صرف دو معاہدے طے پا گئے ہیں بلکہ انہوں نے باہمی سرمایہ کاری، تجارت، توانائی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے شعبوں میں دستیاب مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے اور حکومتی وفود کے تبادلوں کے عمل میں تیزی لانے سے بھی اتفاق کیا ہے جبکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی وہ ایک دوسرے کے دست و بازو ثابت ہونگے۔ مذکورہ بالا مشترکہ اعلامیہ اور وزیراعظم محمد نوازشریف کے اس بیان سے کہ دونوں ممالک میں برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور علاقائی و بین الاقوامی معاملات کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں وحدت فکر و نظر پائی جاتی ہے پتہ چلتا ہے کہ پاک سعودیہ تعلقات میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اور گہرائی آتی جارہی ہے۔جہاں تک خارجہ پالیسی کا تعلق ہے پاکستان اور سعودی عرب دونوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اس سال کے اواخر میں ہونے والے انتخابات اور مختلف افغان دھڑوں میں مفاہمت کو فروغ دینے کے لئے اپنی سیاسی حمایت جاری رکھیں گے سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پرامن ذرائع سے مسئلہ کشمیر کے حل کی امید ظاہر کرتے ہوئے پاک بھارت روابط میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کا خیرمقدم کیا ہے اسی طرح دونوں ممالک نے فلسطین کاز کی حمایت کرنے اور اس دیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے۔ جہاں تک پاک سعودیہ دو طرفہ تعلقات کا تعلق ہے تو وہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ ایسے دینی اور ثقافتی رشتوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں جن کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے ۔ پاکستان کو اس وقت خاص طور پر توانائی اور انفراسٹرکچر کےشعبوں میں سعودی اشتراک کی جتنی زیادہ ضرورت ہےوہ عیاں راچہ بیاں کی مصداق ہے اس لئے ان میں سعودی عرب کا بیش از بیش تعاون پاکستان کو ترقی کی نئی راہوں پر گامزن کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

حکومتی کارکردگی اور عوامی توقعات
گیلپ پاکستان رائے عامہ کے جائزے کا معتبر ادارہ ہے ۔ اس کے ایک تازہ سروے کے مطابق مہنگائی ، بدامنی، دہشت گردی، گیس اور بجلی کے بحران کے باوجود عوام کی نگاہ میں موجودہ وفاقی حکومت کی کارکردگی سابقہ حکومت سے مجموعی طور پر بہتر ہے۔ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ایک سال قبل پیپلز پارٹی کے دور کے مقابلے میں موجودہ دور میں حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے درجہ بندی میں59 فی صد بہتری آئی ہے۔جائزے کے اس مثبت پہلوکے ساتھ ساتھ منفی پہلو یہ ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں حکومتی کارکردگی کی درجہ بندی منفی45فی صد، دہشت گردی پر قابو پانے میں منفی30فی صد اور کرپشن کی روک تھام میں منفی31فیصد رہی ۔تاہم ان تمام ایشوزپرموجودہ حکومت پاکستانی شہریوں کی اکثریت کی نگاہ میں سابقہ حکومت سے بہتر کارکردگی کا ثبوت دے رہی ہے چنانچہ سروے کے مطابق مہنگائی، دہشت گردی اور کرپشن کے معاملے میں موجودہ حکومت نے بالترتیب 20 فی صد،31 فی صد اور 36 فی صد بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔گیلپ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کے بقول یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقتصادی بہتری اور قیام امن کے لیے حکومتی کاررکردگی کے بارے میں عمومی مایوسی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جبکہ سرکاری نظم چلانے کے معاملے میں نواز شریف حکومت کے بارے میں 55فی صد افراد نے مثبت اور40 فی صد نے منفی رائے دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے برسراقتدار آنے سےپہلے والے دور حکومت میں اس حوالے سے 71 فی صد منفی اور صرف27 فی صد مثبت رائے ظاہر کی گئی تھی۔ رائے عامہ کا یہ جائزہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام اپنے معاملات ومسائل کی کیفیت میں بہتری کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کاوشوں کی قدر کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی ضرورت بھی محسوس کرتے ہیں کہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی کو مزید بہتر اور نتیجہ خیز بنائے۔ عوام کی اس رائے کو حکومتی پالیسیوں کی تشکیل میں پوری طرح ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔