سیکس کی بنیاد پر ڈیپ فیک تصاویر تیار کرنا مجرمانہ فعل قرار دیا جائے گا، نیا قانون زیر غور

April 18, 2024

لندن (پی اے) انگلینڈ اور ویلز میں ایک نئے قانون پر غور کیا جارہا ہے، جس کے تحت سیکس کی بنیاد پر ڈیپ فیک تصاویر تیار کرنا مجرمانہ فعل قرار دیا جائے گا، اس قانون کے تحت جو کوئی بھی کسی فرد اس کی مرضی کے بغیر اس کی بیہودہ تصاویر تیار کرے گا، اس پر لامحدود جرمانہ کیا جائے گا اور اسے کرمنل ریکارڈ میں درج کرلیا جائے گا۔ وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ اس کا اطلاق اس بات سے قطع نظر ہو کر کیا جائے گا کہ اسے شیئر کرنے کے خیال سے نہیں بنایا جائے گا لیکن اس طرح کی تصاویر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئیں تو ایسا کرنے والے کو جیل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈیپ فیک تصویر اسے کہتے ہیں کہ جس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے کسی کی تصویر پر اس کے چہرے کے بجائے کسی دوسرے کا چہرہ لگا دیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے ایسی بہت سی تصاویر بنائی گئی ہیں، جن میں خواتین کی بیہودہ تصاویر کی اکثریت ہے۔ حال ہی میں چینل 4کی نیوز پریزنٹر کیتھی نیو مین کو پتہ چلا تھا کہ ان کی اپنی تصویر کو ڈیپ فیک کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اس لئے ہمیں قانون سازی کر کے اس کا دائرہ مقرر کرنا چاہئے۔ گزشتہ سال منظور کئے گئے آن لائن سیفٹی ایکٹ کے تحت ڈیپ فیکس کو شیئر کرنا غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔ ڈرہم یونیورسٹی کی پروفیسر کلیئر مک گلین کا کہنا ہے کہ یہ قانون بڑی حد تک محدو د ہے کیونکہ اس کے تحت کسی کو کرمنلائز اسی وقت کیا جاسکے گا جب آپ یہ ثابت کردیں کہ کسی فرد نے آپ کو پریشان کرنے کی نیت سے تصویر بنائی ہے اور اس کی وجہ سے قانون میں سقم پیدا ہوگا۔ اس کا اطلاق صرف بالغوں کی تصاویر پر ہوگا کیونکہ بچوں کی تصاویر کے حوالے سے قانون پہلے ہی سے موجود ہے۔ برطانوی وزارت انصاف کا کہنا ہے کہ اسے کرمنل جسٹس بل میں ایک ترمیم کے طورپر متعارف کرایا جائے گا، جو پارلیمنٹ کے منظور کئے جانے کے مرحلے میں ہے۔ متاثرین کو تحفظ فراہم دینے سے متعلق امور کی وزیر لاؤرا فارس کا کہنا ہے کہ نئے قانون سے یہ واضح پیغام جائے گا کہ اس طرح کی تصاویر تیار کرنا غیر اخلاقی، بعض اوقات خواتین سے نفرت کا اظہار ہے اور یہ ایک جرم ہے۔ انھوں نے سیکسی ڈیپ فیک تصاویر تیار کر نا قطعی طورپر ناقابل قبول ہے، خواہ اس کو شیئر کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض لوگ خاص طورپر خواتین کو نیچا دکھانا اور ان کی توہین کرنا چاہتے ہیں اور اگر اس طرح کے میٹریل کو شیئر کیا جائے تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حکومت اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ لوگوں نے اس قانون کو ڈیپ فیک بنانے والوں کے قانون کا شکنجہ مزید سخت کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی ہے۔ شیڈو وزیر داخلہ یووٹ کوپر نے اس طرح کی تصاویر تیار کرنے کو کسی بھی فرد کی آزادی اور پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کو برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ اس کیلئے ضروری ہے کہ اس قانون کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کیلئے پولیس اور پراسیکیوٹرز کو ضروری تربیت اور اختیار دیا جائے تاکہ کوئی مجرم سزا سے نہ بچ سکے۔