ایرانی صدر کا دورہ پاکستان

April 28, 2024

’’ہم پاکستان سے تاریخی تعلقات کو منقطع نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ الفاظ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیں جو انہوں نے دورۂ پاکستان کے موقع پر کہے۔ ایرانی صدر نے پاکستان کے صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ایران کے مابین 8معاہدے ہوئے۔ باہمی تجارت 10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم کیا گیا۔ قارئین! اس پر تبصرے وتجزیے سے قبل ایران کی تاریخ پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔ اس کے بغیر بات آگے بڑھانا ادھورے پن کا احساس پیدا کرے گا۔ا س علاقے میں چار ہزار سال قبل مسیح میں زرعی تہذیب موجود تھی۔ تین ہزار سال قبل مسیح میں یہاں آریہ قوم آوارد ہوئی۔ بعد ازاں یہ میڈیا اور پارس دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی۔ پھر 550ق م میں متحد ہو گئی اور سلطنت فارس کی بنیاد ڈالی جس کے پہلے حکمران ’’سائرس اعظم‘‘ تھے۔ سائرس اعظم کی سلطنت بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل سے افغانستان کی مشرقی سرحد تک پھیلی ہوئی تھی جس میں ایشیائے کوچک کی یونانی ریاستیں، باختر، افغانستان، مکران کے علاقوں کے علاوہ بابل کی مشہور دی اشوری سلطنت بھی شامل کرلی گئی تھی۔ 330ق م میں یونانی فاتح سکندر اعظم نے بادشاہ داریوس سوئم کو شکست دی۔ اس کے جانشینوں کی حکومت کا سلسلہ 185ق م تک جاری رہا۔ 224ء سے 652ء تک ایران پر ساسانی حکمران رہے۔ بغداد کے قریب ’’طیسفون‘‘ ساسانی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ساسانی خاندان کے تین بادشاہوں کا لقب ’’یزدگرد‘‘ تھا۔ 628ء میں حضور ﷺنے ایران کے بادشاہ نوشیرواں کے پوتے ’’خسرو پرویز‘‘ کو اسلام کی دعوت کا نامہ مبارک بھیجا، لیکن اس نے گستاخی کا ارتکاب کرتے ہوئے اسے پھاڑ ڈالا۔ اس کا دور حکومت 590ء سے628 ء تک رہا۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں خسرو پرویز کے پوتے ’’یزدگرد سوئم‘‘ کو اسلام کی دعوت دوبارہ دی گئی، مگر اس نے انکار کرتے ہوئے سفیروں کو دربار سے نکال دیا، چنانچہ قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں کو شکست فاش ہوئی۔ ایران کا تاریخی پرچم درفش کاویانی عربوں کے ہاتھ آگیا۔ اسلام کا آخری معرکہ 642ء میں نہاوند میں ہوا۔ یزدگرد شکست کھاکر بھاگا لیکن ایک کسان کے ہاتھوں چھپتا چھپاتا مارا گیا۔ اس کے بعد ایران خلافت راشدہ کا حصہ رہا۔ خلافت راشدہ کے بعد بھی یہ بنوامیہ اور بنو عباس کی خلافت کا حصہ رہا۔ عربوں کے بعد 1037ء میں ترکوں اور اس کے بعد 1387ء میں منگولوں نے ایران پر تصرف حاصل کر لیا۔ صفوی خاندان نے 1499ء میں اقتدار کرلیا۔ اس کا تسلسل 1736ء تک جاری رہا۔ 1736ء میں نادر شاہ نے ایرانی تخت پر قبضہ کرنے کے ایک سال بعد ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ 1794ء میں قاچار قبیلے کے ایک سردار آغا محمد نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1901ء میں ایران کی سرزمین پر تیل دریافت ہوا، چنانچہ روس اور برطانیہ نے 1907ء میں ایک معاہدہ کیا جس کی بدولت ایران کو اپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کر لیا۔ 1921ء میں ایک جرنیل رضا خان نے بادشاہ کا تخت اُلٹ کر پہلوی خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھی۔ 1941ء میں روسی وبرطانوی فوجوں نے ایران پر قبضہ کر لیا۔ 1946میں روسی افواج واپس چلی گئیں۔ 17 جنوری 1979ء کو شاہ ایران ملک گیر احتجاجی تحریک اور مسلح بغاوت کی وجہ سے ملک سے فرار ہو گئے۔ فروری 1979ء کو جلا وطن شیعہ رہنما روح اللہ موسوی خمینی نے فرانس سے تہران پہنچ کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی۔ ستمبر 1980ء سے اگست 1988ء تک ایران عراق جنگ ہوئی۔ جون 1989ء میں روح اللہ موسوی خمینی کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد سے ’’آیت اﷲ خامنہ ای‘‘ ایران کے روحانی و مذہبی رہنما ہیں۔ اگست 2005ء محمود احمدی نژاد ایران کے صدر بنے۔ نژاد نے امریکا کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ 30اگست 2006ء کو انہوں نے سابق امریکا صدر بش کو ٹیلی ویژن پر لائیو مباحثے کیلئے چیلنج کیا۔ 24ستمبر 2007ء کو انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی طاقتوں سے کہا: ’’ایٹمی ٹیکنالوجی پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہر کسی کا حق ہے اور ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے۔‘‘ مارچ 2008ء کو بغداد پہنچنے پر امریکا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’امریکا نے عراق پر حملہ تیل کی دولت لوٹنے کے لیے کیا۔‘‘ امریکا نے بڑی منصوبہ بندی سے مشرقِ وسطیٰ میں نفرت کے بیج بوئے۔ سامراج، عالمِ اسلام کو تقسیم در تقسیم کر کے اس کی رہی سہی طاقت بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔‘‘ اس وقت 2024ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی ہیں۔ یہ بہت ہی زیرک اور پڑھے لکھے انسان ہیں۔ عالمی اور علاقائی سیاست اور حالات کا ادراک رکھتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے پاکستان اور ایران کے علانیہ اور خفیہ تعلقات ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ان دنوں پاکستان کو مختلف محاذوں پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اندونی و بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے سویلین اور عسکری قیادت سر جوڑے بیٹھی ہے۔ اسی پسِ منظر میں دوست ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود آ جا رہے ہیں۔ پہلے چائنہ کا وفد آیا، پھر سعودی وفد آیا اور اب ایرانی صدر نے اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا۔ پاکستان نے سب کو ویلکم کیا۔ ملک و قوم کے مفاد میں معاہدے ہوئے۔ افہام و تفہیم سے عالمی و علاقائی گھمبیر مسائل کے سنجیدہ حل پر اتفاقِ رائے کیا گیا۔ ایرانی صدر کا دورۂ خصوصی اہمیت کا حامل یوں ہے کہ اس وقت پاکستان کو عالمی اور علاقائی سطح پر کچھ مشکلات اور پابندیوں کا سامنا ہے۔ امریکا بہادر کی آنکھوں میں ایک مرتبہ پھر ایٹمی پروگرام کھٹک رہا ہے اور وہ پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں طالبان حکومت سے ٹی ٹی پی کے معاملے پر حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے ہیں۔ اندریں حالات ایرانی وفد کو شاندار اور بھر پور طریقے سے پروٹوکول دے کر امریکا کو کئی بین السطور پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے معاملات میں ٹانگ نہ اڑاؤ، یاد رکھو کہ ہم پھول بھی ہیں اور تلوار بھی!