من پسند مسائل

May 10, 2024

تاریخ کے گہرے مطالعے سے یہ راز کھلا کہ من پسند مفادات اور فیصلوں کی طرح ہمارے ہاں مسائل بھی من پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ قومیں مخصوص مسائل کو بڑی اہمیت دیتی ہیں جبکہ بعض طبقات اپنے من پسند مسائل کی جگالی کرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں ایسی قومیں بھی ہیں جو مسائل کا ذکر کم کرتی اور اُن کا حل پہلے دریافت کر لیتی ہیں۔ مَیں نے جب سے ہوش سنبھالا، اپنے سیاست دانوں کو یہی کہتے سنا کہ پاکستان مسائلستان بن گیا ہے۔ آجکل ’’عدالتستان‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی ہے کہ ہر معاملہ عدالت میں جاتا ہے اور اِس پر بڑے دلچسپ فیصلے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدالت میں جو مسئلہ حل کیا جاتا ہے، اُس کے بطن سے نت نئی قانونی نکتہ آفرینیاں جنم لینے لگتی ہیں جن سے معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں من پسند مسائل کا شمار کرنے والے محققین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور وُہ بالغ نظر افراد کم ہوتے جا رہے ہیں جو قوم کو یہ بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد اُن کے مسائل میں کس قدر کمی واقع ہوئی ہے اور کس قدر عظیم الشان مواقع پیدا ہو چکے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جہاں بھی دو چار لوگ جمع ہوتے ہیں، اپنے اپنے خیالی اور ہیجانی مسائل کا دکھڑا لے بیٹھتے ہیں۔ بہت کم یہ سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا، تو بےرحم ہندو اَکثریت کے ہاتھوں اُن کا کیا حال ہوتا۔ ہمیں تو غزہ کی پٹی بھی نصیب نہ ہوتی اور کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔ اللہ کے بندوں کو زندگی کا روشن رخ دکھانے کے لیے سورۃ الرحمٰن نازل ہوئی اور اَحادیث میں اِس سورۃ کی بار بار تلاوت کی تاکید کی گئی ہے۔

اِس امر سے انکار محال ہے کہ ہمارے معاشرے میں کسی قدر بدنظمی اور مبالغہ آرائی کا دور دَورہ ہے۔ ذمےداری قبول کرنے کے بجائے مسائل کا رونا پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ آپ اگر حکمرانوں سے یہ معلوم کرنا چاہیں کہ حالات مزید بدتر کیوں ہو گئے ہیں، تو بالعموم آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ ماضی کی حکومتیں مسائل کے انبار چھوڑ گئی ہیں اور تمام وقت اُنہی سے نمٹنے میں گزر جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں کا ہے۔ وہ شہریوں کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کے بجائے اُن عوامل کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں جو معاشی نشوونما پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اَور نصابِ تعلیم ترتیب دینے والے دماغوں سے تو آپ یہ پوچھ ہی نہیں سکتے کہ آپ سائنسی ایجادات سے لدی پھندی اکیسویں صدی میں انیسویں یا بیسویں صدی کا نصاب کیوں پڑھا رہے ہیں۔

ہماری عسکری قیادتیں جو ماشاءاللہ زندگی کے ہر شعبے میں نہایت سرگرم ہیں، وہ زیادہ تر قومی سلامتی کے مسائل کو اہمیت دیتی ہیں کہ یہی اُن کا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ مسائل کی رَٹ سنتے سنتے ہمارے اعصاب اِس قدر شل ہو چکے ہیں کہ 9 مئی کے حادثے کو ایک سال گزر چکا، لیکن اِس کے منصوبہ ساز، سہولت کار اَور حساس فوجی مراکز اور شہدا کی یادگاریں مسمار کرنے والے ابھی تک قانون کے کٹہرے میں نہیں لائے گئے۔ قوم کی زیادہ تر توانائیاں لفظوں کی جنگ میں ضائع ہو رہی ہیں اور زندگی معلق دکھائی دیتی ہے۔

ہم گزشتہ ایک ماہ سے گندم اسکینڈل میں غوطے کھا رہے ہیں اور اَصل مسئلے کی طرف سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں ضرورت سے کم گیہوں پیدا ہو رہی ہے اور کسانوں کے حالات بڑے دگرگوں ہیں، کیونکہ نئی فصل کھیتوں میں پڑی ہے اور بارشوں میں بھیگ رہی ہے۔ حکومت نے اِس سال گندم سپورٹ پرائس 3900 روپے فی من مقرر کی ہے، مگر وہ اِس قیمت پر خریدنے سے ہچکچا رہی ہے کیونکہ اِس کے پاس خریداری کے لیے پیسے ہیں نہ اسٹور کرنے کے لیے جگہ ہے۔ اِس موقع سے مڈل مین فائدہ اُٹھانے کی پوری پوری کوشش کر رہا ہے۔ اُس کا ہدف یہ ہے کہ کسانوں سے یہ گندم 3000 روپے فی من سے بھی کم میں خرید لے۔ اِس بِنا پر کسانوں میں شدید اضطراب پھیل رہا ہے اور پنجاب حکومت کو ایک بہت بڑے بحران کا سامنا ہے۔ اصل مسئلے کا دیرپا حل تو یہی ہے کہ قومی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ملک میں گندم ضرورت سے زیادہ پیدا ہو اَور زرعی شعبے کی حقیقی ترقی پر بھرپور توجہ دی جائے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ گندم کی سپورٹ پرائس کا تعین اِس طرح کیا جائے کہ عوام گندم کی بےجا گرانی سے بھی محفوظ رہیں۔

مَیں اِس ضمن میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ہمارے خاندان نے سرسے سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ سرسہ ضلع حصار کی تحصیل تھی جو انبالہ ڈویژن میں واقع تھا۔ انبالہ ڈویژن پنجاب کا سب سے پس ماندہ علاقہ تھا۔ پنجاب تقسیم ہوا، تو تین ڈویژنیں مغربی پنجاب یعنی پاکستان کے حصّے میں آئیں۔ ہم نے جب سرسہ سے ہجرت کی، تو یہ ایک پس ماندہ تحصیل تھی جس میں صرف ایک ہائی اسکول تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پورے انبالہ ڈویژن میں ایک بھی قابلِ ذکر کالج نہیں تھا۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم نوجوان علی گڑھ یونیورسٹی جاتے یا لاہور کا رُخ کرتے تھے۔ آزادی کے چند سال بعد سرسہ ضلع بن گیا۔ اب وہاں بھارتی پنجاب کی جدید ترین زرعی یونیورسٹی قائم ہے جہاں طاقت ور بیجوں کی تیاری پر دن رات کام ہو رہا ہے۔ مجھے زرعی ماہرین کی زبانی معلوم ہوا کہ اب صرف ضلع سرسہ اتنی بڑی مقدار میں گندم پیدا کر رہا ہے کہ پورے بھارتی پنجاب کی ضرورت پوری ہو رہی ہے۔ اِس دوران اِس علاقے کے کسان سیاسی طورپر اِس قدر منظم ہو گئے ہیں کہ بھارت کی کئی ریاستوں میں عام آدمی پارٹی کامیاب ہو گئی ہے اور وُہ کسانوں کی زمینوں اور گھروں کو مفت بجلی فراہم کر رہی ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کے منصوبہ سازوں اور دَانش وروں کو بھارتی پنجاب کی حیرت انگیز زرعی ترقی کا راز معلوم کرنا چاہیے۔ اپنے اپنے من پسند مسائل کی جگالی کا دور گزر گیا جو ہماری پس ماندگی کا باعث بن رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)