اپنے بچوں کی زندگی آسان کیجیے

May 10, 2024

اگر کبھی ان مظالم کی فہرست بنائی جائے ، جو بچوں پر کیے جاتے ہیں تو ان میں سرفہرست وہ ظلم ہوں گے جو خود انکے اپنے والدین انجانے میں کرتے ہیں ۔ پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اور یہ سوچتے ہوئے کہ زبردستی جب بچے سے اپنی بات منوائی جائے گی تو زندگی میں وہ کامیابی کی طرف بڑھے گا ۔ میری بیٹی مشیہ بلال ایک دن سکول سے واپس آئی تو کہنے لگی کہ آج میں نے اردو کے ٹیسٹ میں چھ میں سے چھ نمبر لیے ہیں ۔ بچی خوش تھی اور ماں بھی خوش۔ چند دن بعد آئی تو منہ اترا ہوا۔ کہنے لگی آج آٹھ میں سے پانچ نمبر آئے ہیں ۔ ماں نے سنا تو منہ لپیٹ کر بستر میں لیٹ گئی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ پریشان کیوں ہو ۔ کہنے لگی آٹھ میں سے آٹھ نمبر زیادہ ہوتے ہیں ۔ پانچ نمبر کم ہوتے ہیں ۔ میں نے کہا: آپ کو کس نے کہا کہ پانچ نمبر کم ہوتے ہیں ۔ پانچ نمبر بہت ہیں ۔ میرے تو اپنے کئی دفعہ پانچ نمبر آیا کرتے تھے ۔

میری شریکِ حیات کے تاثرات اس وقت ایسے تھے جیسے میں جان بوجھ کر بیٹی کو’’ پٹھی مت‘‘ دے رہا ہوں ؛حالانکہ میں ایمانداری سے سمجھتاہوں کہ پانچ نمبر کوئی برے نمبر نہیں ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بہت سے لوگ ٹاپ کرنے کے چکر میں ڈپریشن کا شکار ہوئے ۔ اچھے نمبر لینا بہت خوب لیکن اس شوق کو دیوانگی میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے ۔ نہ ہی مجھے ڈنڈے کے زور پربیٹی کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کا شوق ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے ہیئر ڈریسر بننا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ اچھا میں آپ کو بیوٹی پارلر بنا دوں گا ، کاسمیٹالوجسٹ بنا دوں گا ۔

آج والدین یہ ثابت کرنے کے چکر میں کہ ہمارا بچہ جینئس ہے ، اسے اڑھائی سال کی عمر میں ہی سکول داخل کرادیتے ہیں ۔ بچّہ بیچاراچاہے پورا دن روتا رہے اور اس کی ناک بہتی رہے ۔ والدین اپنی زندگی میں جو کچھ نہیں کر سکے ، وہ زبردستی اپنے بچے سے کروانا چاہتے ہیں ؛خواہ ان میں اس کام کا رجحان ہی نہ ہو ۔یہ کتنی زیادتی کی بات ہے ۔

گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی میں دنیا حیرت انگیز رفتار سے تبدیل ہوئی ہے۔ہمارا بچپن بہت مختلف تھا ۔موبائل اور گیمز نہیں ہوتی تھیں ۔ ویڈیو گیمز کی مخصوص دکانیں ہوا کرتیں، جن میں مشین کے اندر ایک روپے کا ٹوکن ڈالا جاتا۔ ایک Myth یہ رائج تھی کہ زیادہ گیمز کھیلنے والوں کی آنکھیں نیلی ہو جاتی ہیں۔ آج ہر بچے کی جیب میں ایک موبائل فون ہے، جو گیمز سے بھرا ہوا ہے۔ وہ آزادی سے اپنے ماں باپ کے موبائل پر گیمز کھیلتے ہیں۔ تقریباً دس برس کی عمر میں، انہیں اپنا ذاتی موبائل لے دیا جاتا ہے۔ ویسے ماہرین کی رائے میں، گیمز کھیلنے کے ذہنی طور پر کئی فائدے بھی ہیں، اگر اعتدال کارفرما ہو ۔ وہ خوشی خوشی اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے‘ ہر دفعہ بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسئلہ ہے تو صرف یہ کہ ان ویڈیو گیمز میں ایک قسم کا نشہ ہوتا ہے، Addictionہوتی ہے ۔

بچّوں کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم یہ ہے کہ آپ نے صحت مند طرزِ زندگی انہیں دکھایا ہی نہیں ۔ ان کے سامنے کاربونیٹڈ سافٹ ڈرنکس پیتے ہیں۔ یہ بچوں کے بڑھنے کی عمر میں تو نقصان دہ ہیں ہی لیکن 27، 28 سال کی عمر کے بعد تو یہ انہیں تیزی سے موٹاپے کی طرف لے جائیں گی ۔ جوانی میں ہی لوگوں کی شریانیں کولیسٹرول سے بھر رہی ہیں ۔

حقیقی ذائقہ رکھنے والی دنیا کی مزیدار ترین چیزوں سے ہم بچوں کو متعارف ہی نہیں کراتے ۔ وہ چیزیں، جو قدرتی طور پر اگتی ہیں۔ جنہیں کسی Process سے گزارا نہیں جاتا۔ پاکستان میں تو پھل قدرتی طور پر لذیذ ہیں۔ انور رٹول سے زیادہ ذائقے دار چیز اور کیا ہوگی ۔ لیچی، چیری، سٹرابری، چتری والےکیلے، سندر خانی انگور، پکے ہوئے میٹھے انار، امرود اور ناریل۔ یہ وہ چیزیں ہیں کہ بندہ ان کو کھاتا جائے اور اپنی انگلیاں چاٹتا جائے۔ آپ دیکھیں گے کہ انسان نے بھی جو ذائقے (Flavors) متعارف کرائے ، ان میں یہی چیزیں شامل ہیں۔ بوتلوں اور آئس کریموں میں Mango فلیور سب سے عام ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم انہیں نہیں کھاتے تو بدقسمتی کے علاوہ اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا ہمارے رزق اور نصیب میں ان چیزوں کو لکھا ہی نہیں گیا؟

بچوں پہ یہ ظلمِ عظیم ہے کہ ہم دماغی مشقوں والی ویڈیو گیمز تو انہیں دیتے ہیں لیکن جسمانی طور پر انہیں کھلانے کیلئے کبھی نہیں لے جاتے۔ فٹ بال اور دوسرے کھیل، جن میں بچوں کو دوڑ لگانی پڑے، ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو، یہ جسم کیلئے انتہائی حد تک مفید ہیں۔ ان کی جسمانی بڑھوتری میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس بڑھتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کھیل ایک ایسے اینٹی ڈپریسنٹ کا کام کرتے ہیں، جو بچوں کو زندگی میں اداسی سے دور لے جاتا ہے۔جسمانی کھیل کود سے موڈمیں زبردست تبدیلی آتی ہے ۔بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت اور قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اب یہ کس قدر زیادتی والی بات ہے کہ انسان اپنے بچوں کو کولڈ ڈرنکس اور ویڈیو گیمز کی لت لگائے اور انہیں کھیلنے کودنے کیلئے نہ لے کر جائے۔آج ہر گھر میں یہی ہو رہا ہے۔

سب سے بڑا ظلم یہ کہ ہم بچے کا رجحان دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے۔ خود اپنی زندگی میں جو کام نہیں کر سکے، وہ زبردستی اپنی اولاد سے کروانا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے انہیں Motivate کرتے رہتے ہیں۔ بچّہ بیچارا ماں باپ کا دل رکھنےکیلئے کوشش کرتا رہتا ہے۔ اپنے قدرتی رجحان کے خلاف کوشش کرتے رہنے سے اس میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے اور یوں اپنی فیلڈ میں وہ مہارت کے درجے تک نہیں پہنچ پاتا۔