کسانو! کچھ نہ ہوگا شور و شر سے

May 10, 2024

1946میں جب ہوش سنبھالا تو دوسری جنگ عظیم کی باقیات یعنی راشن بندی، ہر قسم کے کپڑوں پر پابندی وحشتوں کے درمیان ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعروں نے، انتظار حسین کی نانی اماں کی کہانیوں کی جگہ، سیاسی سوچ نے گھر بنا لیا۔ کچھ اور ہوش آیا تو ناگاساکی، ہیروشیما پر بم گرانے کا پہلا واقعہ سننے میں آیا کہ اب تو غزہ میں اولوں کی طرح بم گر رہے ہیں اور امن پسندی صرف نعروں میں رہ گئی ہے۔ دنیا کے علاوہ پاکستان میں الیکشن کے بعد صدر مملکت اور وزیراعظم کے بیانات اور گندم سے لے کر فارم 45اور 47کی کہانیاں، لڑائیاں اور دھمکیاں سن کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ملک ابھی ابھی آزاد ہوا ہے۔قتل و غارت، اسمگلنگ، منشیات، بچوں اور عورتوں کے ساتھ زیادتی نے جینالولو بریجیڈا کی فلم SUN FLOWERکی کہانی یاد کرا دی، ساتھ ہی کوریا، جاپان، یورپ خاص کر جرمنی اورفرانس کے علاوہ انگلینڈ کی نہ صرف معیشت برباد تھی بلکہ ہٹلر اور مسولینی کے زمانے اور یورپ سے یہودیوں کی بے دخلی کا نقشہ، جو بھی تھا آج یہ سب ملک ترقی یافتہ ہیں اور ہم نےسالہا سال افغان مہاجرین کی میزبانی کی اور پھر 2021میں باقاعدہ طالبان کےپورے افغانستان پر قبضے کے بعد سے دنیا نے نہ ان کی حکومت کو تسلیم کیا ہے اور پھر بھی مختلف ملکوں کے وفود آتے ہیں،کہتے ہیں لڑکیوں کو پڑھنے دیں مگر ’’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘‘ والی کیفیت، اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی طرح جاری ہے اور ہم نئے سرے سے کچھ انوکھا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک دفعہ پھر معیشت معیشت کھیل کر۔

اس سارے ابتدایئے کے پس منظر میں الیکشن کے بعد یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان ابھی آزاد ہوا ہے۔ منصوبہ بندی کا فقدان، معیشت، عدلیہ اور معاشرت میں بحران اس قدر ہے کہ نہ حکومتیں مکمل طور پر بنی ہیں، نہ صوبوں میں مفاہمت، نہ مرکزی حکومت نے 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو باقاعدہ اختیارات منتقل کئے ہیں۔ ایک طرف ایک صوبہ سندھ سے آواز آتی ہے ’’اور 20بسیں آرہی ہیں‘‘۔ پنجاب سے آواز آتی ہے ’’موبائل ہسپتال پنجاب بھر میں بنا دیئےگئے‘‘۔ تیسرے صوبے کے پی سے آواز آتی ہے ’’اختیارات دو، ورنہ ہمیں چھیننا بھی آتا ہے‘‘۔ اور چوتھے صوبے میں ظاہراً حکومت بن گئی ہے۔ حکومت کی نگرانی چھوڑنے والے کہہ رہے ہیں ’’مجھے مت چھیڑو ورنہ فارم 47کے باعث بننے والی حکومت کے سارے راز بتا دوں گا‘‘۔ شاید اس لئے درآمد کی جانے والی گندم کا راز نہیں کھل رہا کہ کس کے مشورے، کہنے اور دستخطوں سے 30لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی گئی اور وزارت خوراک کیا عقلمندی کی باتیں کررہی ہے کہ ’’گندم بارش سے گیلی ہے، ذرا سوکھنے دیں‘‘۔ یہ بالکل اسی طرح ہو رہا ہے کہ جب گنے کی فصل تیار ہو کر فیکٹریوں کے باہر ٹرکوں میں کئی ہفتوں تک پڑی رہتی ہے، کسان شور مچاتے ہیں، وہاں بھی یہی جواب آتا ہے ’’ذرا سوکھنے دیں‘‘۔ بھلا گندم اور گنے کا کیا مقابلہ، بس یہ ہے کہ ’’مارو گھٹنا، پھوٹے آنکھ‘‘۔

35برس پہلے امارات میں ترقی کا سفر شروع ہوا اور روس سے آزادہو کر سنٹرل ایشیا کے ممالک نے اپنا اپنا حکمرانی کا طمنچہ سنبھالا۔ 35برس پہلے دبئی اور تاجکستان سے لے کر سارے ملکوں کی یہ حالت تھی کہ پرانے مچھیروں کی بستی سے دبئی آباد ہونا شروع ہوا اوراگر کرغستان جیسے ملکوں میں اسٹور خالی تھے، عورتیں زمین پہ رومال بچھا کر سبزیاں، پھل اور علاقائی کشیدہ کاری کے اپنے کپڑے، کوٹ اور قالین بیچ رہی تھیں اور ہر روز کراچی میں جہاز اترتے اور پلاسٹک کے لوٹے اور برتن بوریوں میں بھر کر لے جائے جاتے۔ اسی زمانے میں دونوں علاقوں میں لڑکیوں اور عورتوں کی تجارت کی نامعقولیت بھی شروع ہوئی تھی۔ اس زمانے میں مرکزی ایشیا کے ملکوں میں ہمارے جہاز باقاعدگی سے جاتے تھے۔ جب ہم نے بہت قرآن شریف اور مولوی بھیجنے شروع کئے تو ان ریاستوں کی طرف سے وارننگ آگئی کہ ہمیں مسلم ممالک مت کہیں اور جہاز بھی غائب ہوگئے۔

اب میں اپنی نئی حکومت والوں سے پوچھوں کہ آخر آپ سب نے باریاں لی ہوئی ہیں، مگر کہتے ہیں حکومت کا ہر شعبہ ناکارہ، رشوت اورا سمگلنگ میں مبتلا ہے۔ پوچھتے ہیں اور وہ بھی معصومیت سے کہ آخر یہ ڈاکو کہاں سے آگئے۔ یہ 20سے 30سال کے لڑکے ہر روز عورتوں کے بیگ اور زیور کیوں چھین رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2کروڑ 86لاکھ بچوں کو ہنگامی سطح پر پڑھانے کا انتظام کیا جائے گا۔ جبکہ شفقت محمود کا بنایا ہوا نصاب اول تو نایاب اور اگر ہے بھی تو اس قدر ناقص کہ فوری ہر صوبے کی نصاب کمیٹی نہ صرف مقامی زبانوں کو شامل کرے بلکہ ہر شہر کا تاریخی پس منظر کھیت، کھلیان، عوامی میلوں، کھیلوں، ثقافت اور تہذیب میں نئی شامل ہونے والی جزئیات جن میں موبائل اور آرٹی فیشل عقلمندی کا کم از کم تعارفی ڈھانچہ تو پیش کریں۔ اب جبکہ سب کچھ نئے سرے سے ہونے کے امکانات اور ضرورت منہ پھاڑے کھڑی ہے، جبھی تو بچے کیا، امرود بیچنے والے کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ یا تو ملک نیا نیا آزادہوا ہے یا اس کی بنیاد .... یہ سب مت چھیڑیں کہ سیاست ابھی تک تہمتوں کے ہچکولے کھا رہی ہے۔ 7جون کو نیا بجٹ کیسے آئے گا۔ شاید پچھلے بجٹ کی کاپی کا پہلا صفحہ پھاڑ کر نیا صفحہ لگا دیا جائے، حالات تو وہی ہیں، بس ایک ہنگامہ ہے کہ سعودیہ کے بڑے بڑے تاجر آرہے ہیں۔ 4جون کو انڈیا میں الیکشن ختم ہوں گے، پھر وہاں کی رام لیلا، ہمارے تاجر مل کر کیا گل کھلائیں گے کہ ہمارے وزیراعظم نے تو قیدی 804سے بھی مفاہمت کرنے کی آزادی ان کو دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ لفظ اس کی لغت میں نہیں ہے۔ اظہار کی آزادی کی ضمانت محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے فوجی سربراہ بھی اس آزادی کو نوجوان بچوں کے سامنے خطاب میں کہہ رہے تھے۔ ’’جس تک بات پہنچانی تھی پہنچ گئی‘‘۔

گندم کاٹتی خواتین کی تصویر اخبار میں آئی، مجھے یکدم یاد آیا کہ اگر مریم بی بی بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر ہاتھ میں درانتی پکڑ لیتیں اور یہ تصویر سارے دفتروں میں لگتی تو وہ زمین کی بیٹی لگتیں۔ ابھی 7جون دور ہے، صفحہ پلٹتے ہوئے کچھ بلاول بھی اپنے مہرے ہلانے والے ہیں۔ کیا سیاست دانوں کا مجمع، امن اور خوشحالی کیلئے پرانے سبق دہرائے گا کہ اب تک یہی ہو رہا ہے۔ پرانے شعر

’’یہ بی اے ہیں لیکن چلاتے ہیں ٹھیلا‘‘

’’یہ ایم اے ہیں لیکن بیچتے ہیں کریلا‘‘

اس سے آگے کیا!