رل گئے تیری دھرتی والے

May 10, 2024

کچھ قارئین نے چند سوالات کیے ہیں۔ ان کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ لاہور ڈویژن کے امرتسر ضلع کو بھارت میں شامل کر دیا گیا تھا، اسی طرح دلی کو وفاقی دارالحکومت بنانے کے بعد انبالہ کو ڈویژن بنا کر باقی علاقے اس میں شامل کر دیئے گئے تھے پھر انہی علاقوں پر مشتمل 1966ء میں ہریانہ صوبہ بنایا گیا۔ انبالہ ، پانی پت، جمنا نگر، حصار، روہتک، فرید آباد، کرنال، گڑگاؤں اور میوات کے علاقے ہریانہ میں شامل کیے گئے۔ 1971ء میں چمبہ، کانگڑہ، شملہ اور دھرم شالہ کے علاقوں پر مشتمل ہماچل پردیش بنا دیا گیا۔ چلیں! وضاحتوں کا سلسلہ چل نکلا ہے تو ایک اور وضاحت بھی کر دوں۔ 1901ء تک ہزارہ پنجاب کا ایک ڈویژن تھا، پشاور ویلی بھی اس کا حصہ تھی ، 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ قائم کیا گیا تو پنجاب کے ڈویژن ہزارہ کو اس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یوں ہزارہ 1905ء میں مکمل طور پر پنجاب سے الگ ہو گیا۔

اب آ جائیے پاکستانی پنجاب کی طرف کہ یہاں 1947ء کے بعد کیا ہوا؟ کلیموں کا قصہ آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ’’پودینے کے باغات‘‘ والوں کو کئی کئی مربعوں پر مشتمل جاگیریں عطا کر دی گئیں، جن لوگوں کو یہ جاگیریں الاٹ ہوئیں، انہیں کاشتکاری نہیں آتی تھی، لہٰذاا بڑی بڑی جاگیریں تو ان کے نام رہیں مگر صوبے کو اس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہو سکا۔ کلیموں کے بعد فوجی مربعوں کا دور شروع ہوا، فوج کی اکثریت چونکہ ہزارہ اور پنڈی ڈویژن سے تھی، لہٰذاانہیں بھی کاشتکاری کے وہ گر نہیں آتے تھے جن پر وسطی پنجاب والوں کو عبور حاصل ہے، ان زمینوں پر بھی خاطر خواہ محنت نہ ہو سکی۔ پنجاب کے اقتدار میں بھی کھینچا تانی رہی، نواب افتخار حسین ممدوٹ، میاں ممتاز دولتانہ اور فیروز خان نون جیسے لوگوں نے لاہور میں بڑے بڑے گھر تو بنا لیے، اقتدار کی رسہ کشی میں بھی حصہ لیتے رہے مگر وہ کسانوں اور کاشتکاروں کے مسائل سے غفلت برتتے رہے۔ 1970ء کے بعد ملک معراج خالد، مصطفیٰ کھر، حنیف رامے اور صادق قریشی پنجاب کے وہ وزرائے اعلیٰ تھے جو دیہی پس منظر کے حامل تھے۔ بھٹو زرعی اصلاحات کی بات تو کرتے تھے مگر وہ کر کچھ نہ سکے۔

1977ء کے بعد پنجاب کا اقتدار شہری بابوؤں کے نصیب میں لکھ دیا گیا، جنہیں کاشتکاری سے کوئی رغبت نہیں تھی،لہٰذا انہوں نے کسان دشمن پالیسیاں بنائیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ذہن میں چوہدری پرویز الٰہی کا نام گردش کر رہا ہو گا مگر یاد رہے کہ چوہدری پرویز الٰہی خود کو بزنس مین لکھتے ہیں، کاشتکار نہیں۔ منظور وٹو اور عارف نکئی کو بہت تھوڑا ٹائم ملا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ صوبہ پنجاب پر نصف صدی سے ان لوگوں کی حکومت ہے جو زراعت کے دشمن ہیں، وہ اپنے نفع کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ پنجاب کے کسان کے ساتھ ایک اور ظلم پچھلے پینتیس سال سے جاری ہے، سونا اگلنے والی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہڑپ کرتی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے زرعی زمینوں کو کھانے والی ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بعض طاقتور اداروں کی سوسائٹیاں بھی شامل ہیں۔

لاہور اور گوجرانوالہ میںہائوسنگ سوسائٹیاں بنانے والوں کو یہ خیال نہ آیا کہ یہ علاقے بہترین فصلیں پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا آم دنیا میں مشہور ہے مگر ملتان کے ارد گرد بننے والی ہائوسنگ سوسائٹیاں ہمارے آم کے خوبصورت باغات کھا گئیں۔ عمران خان پاکستانی تاریخ کا واحد وزیراعظم ہے جسے یہ احساس ہوا کہ ہماری زرعی زمین کم ہوتی جا رہی ہے، سو اس نے ہاؤسنگ سوسائٹی مالکان سے کہا کہ آپ ہائی رائز بلڈنگز بنائیں تاکہ زرعی زمین بچ سکے، اسی نے درخت لگانے کے بڑے منصوبے کا آغاز کیا، وہ کسانوں سے چارپائیوں پر بیٹھ کر ملاقاتیں کرتا تھا، ان کے مسائل سنتا تھا، صرف سنتا نہیں حل بھی کرتا تھا، سو اس کے ساڑھے تین سالہ دور میں کسان سکھی رہے۔

نصف صدی میں ہونے والے ظلم کی داستان کسی ایک کالم میں تو بیان نہیں ہو سکتی، ظلم کرنے والوں میں حکمران، سرمایہ دار اور سرکاری بابو سب شامل تھے۔ 80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پورے پنجاب میں سفیدہ لگا دیا گیا، سفیدے کے درخت میرے پنجاب کا پانی پی گئے۔ سرمائے کے پجاریوں کو کیا پتہ کہ کاشتکاری کے لئے پانی کس قدر اہم ہوتا ہے، سفیدے نے دھرتی کا پانی چوس لیا، موسم کے برے اثرات بھی مرتب کیے ، یہ عجیب و غریب درخت ہے جس پہ پنجاب کے پرندے گھونسلا بھی نہیں بناتے، ایک طرف سفیدے کے درخت لگا دیئے گئے تو دوسری طرف دریاؤں میں خشکی اترنا شروع ہو گئی۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)