حوصلہ افزائی کے لیے بچّوں کو انعام دینے میں مساوات

May 10, 2024

تفہیم المسائل

سوال: معلوم یہ کرنا ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں تو مساوات برتی جاتی ہے، کسی امتیازی وصف کے سبب کسی کو زیادہ دیا جاسکتا ہے ، کیا بچوں کو بطور انعام تحائف دینے میں بھی مساوات لازم ہے ، مثلاً ایک نواسہ حافظ قرآن ہے، تراویح سنانے کے بعد اسے تحفہ دیا جائے تو کیا سب بچوں کو دینا ہوگا ؟ (علامہ سید نذیر حسین شاہ)

جواب: والد کی طرف سے اولاد کو اپنی حیات میں جو کچھ دیاجاتا ہے، وہ ہبہ (گفٹ) ہوتا ہے اور اولاد کے مابین ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے ، لیکن اگر وہ کسی بچے کو کسی معقول وجہ مثلاً اولاد میں سے کوئی زیادہ غریب یا زیادہ خدمت گزار یا کسی جسمانی معذوری کے سبب کمانے سے عاجز ہے یا علمِ دین میں مشغول ہو یاکسی اور فضیلت کی وجہ سے زیادہ دیتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، علامہ بدرالدین عینی حنفی لکھتے ہیں: ’’ تفاضل کی اگرکوئی وجہ ہو تو جائز ہے جیسا کہ کوئی بچہ مستقل معذورہونے یا علم دین میں مشغولیت کی وجہ سے یاکسی اور وجہ سے محتاج ہو ۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ،جلد13،ص:146)‘‘۔

حفظِ قرآن کریم کی تکمیل کی سعادت یا نوافل یا تراویح میں قرآن مجید ختم کرنے پر جو انعام دیا جاتا ہے یا حوصلہ افزائی کے طورپر جو ہدیہ دیاجاتا ہے، یہ اُس کی دلداری کے لیے ہوتا ہے اور اس لیے بھی ہوتا ہے کہ دوسرے بچوں کے لیے بھی اس کی ترغیب وتشویق کا سبب بنے ، اس میں مساوات لازمی نھیں ہے، یہ ایک فطری تقاضا ہے ۔ایساانعام حوصلہ افزائی کے لیے بعض ایسے بچوں کو بھی دیدیا جاتا ہے، جو کسی کی صلبی یا نسبی اولاد میں نہیں آتے۔

عمومی طور پر اولاد کے درمیان جو ہبہ میں مساوات کا حکم ہے ، وہ اس سے مختلف ہے، نیز بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان ہبہ میں جو مساوات برتنے کا حکم ہے ، اس میں پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل نہیں ہیں۔ اپنی براہ راست اولاد سے تو انسان فطری طور پر خود بھی یہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ماں باپ کی خدمت کریں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں تمہاری ساری اولاد برابر ہو،(سُنن ابو داؤد:3542)‘‘۔