تفہیم المسائل
اس تمام احتیاط کے باوجود جن شعبوں کے لیے اہل خواتین اساتذہ دستیاب ہیں، طالبات کے اداروں میں اُنہیں مُعلم مقرر کیا جائے۔ اگرکسی خاص شعبے کے لیے خاتون متخصّص مُعلّمہ دستیاب نہ ہو تو بامرِ مجبوری مرد مُعلّم پڑھالے، لیکن مرد مُعلّم اورطالبات کے درمیان مناسب فاصلہ بھی رکھا جائے۔ مرد عالمِ دین اپنی محرم خواتین کو مخصوص فنون میں ماہر بنائیں تاکہ اس شعبے کی کمی کو پوراکیاجاسکے ۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حجاب کے ساتھ شرعی قیودکی پابندی کرتے ہوئے باکردار مُتقی عالمِ دین لڑکیوں کو پڑھاسکتا ہے، جبکہ اس کی ضرورت ہو کہ اس شعبے کی ماہر مُعلّمہ کی خدمات دستیاب نہ ہوں۔
بعض اداروں میں ہم نے دیکھا ہے کہ صالح مرد مُعلّم کے لیے ایک چوکور قسم کی نشست گاہ بنالی جاتی ہے اوران کی آمد ورفت کا راستہ الگ ہوتا ہے ، مُعلّم اور مُعلّمات کے درمیان حدِّفاصل کے لیے ایک دبیز شیشہ لگاہوتا ہے اور فاصلہ بھی ہوتا ہے، ایسا انتظام ہوسکے تو بہترہے ،تاکہ مَظَنّۂ تہمت نہ رہے یعنی بدگمانی کے مواقع کا سدِّ باب ہو،رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے عمل سے احتیاط کی تعلیم فرمائی۔
حدیث پاک میں ہے: ترجمہ:علی بن حسینؓ سے روایت ہے : نبی کریم ﷺمسجد میں تھے اور آپ کی ازواجِ مطہراتؓ آپ کے پاس تھیں ،وہ جانے لگیں تو آپ نے حضرت صفیہؓ سے فرمایا: ٹھہرو ،تا کہ میں بھی تمہارے ساتھ چلوں اور ان کا حجرہ حضرت اسامہؓ کے مکان میں تھا ۔نبی کریم ﷺ ان کے ساتھ نکلے تو آپ کو انصار کے دو شخص ملے، انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور آگے نکل گئے۔نبی کریم ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا: ادھر آؤ،یہ صفیہ بنت حُیّی (یعنی میر ی بیوی )ہے۔
دونوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ : سبحان اللہ ! (یعنی آپ کی ذات کے بارے میں مومن کسی بدگمانی کا تصور بھی نہیں کرسکتے) ،آپ نے فرمایا:شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے تو مجھے خدشہ ہواکہ مبادا وہ تمہارے دل میں کوئی وسوسہ (یا بد گمانی) ڈال دے،(صحیح بخاری : 2038)‘‘۔اسی حدیث کی بناءپر کہاجاتا ہے :ترجمہ:’’ تمہت کے مواقع سے بچو‘‘،توتہمت کی جگہوں سے بھی بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ بھی نامناسب ہے کہ لوگ بلاسبب انگشت نمائی کریں ،قرآن کریم میں ہے : ترجمہ:’’ اورجو لوگ ایمان والے مردوں اورایمان والی عورتوں کو بلا خطا ایذا پہنچاتے ہیں ،تو بے شک انھوں نے بہتان کا اور کھلے ہوئے گناہ کا بوجھ اپنے سر پر اٹھایا‘‘۔ (سورۂ احزاب:58)واللہ اعلم بالصواب ۔