مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ
حق اور باطل کی کشمکش اورجنگ روز اول سے جاری ہے۔ ایک طرف کائنات میں اللہ کی بات کو اونچا کرنے والے، اسے نافذ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو اس کے زیر سایہ زندگی گزارنے کا درس دینے والے موجود رہے ہیں تو دوسری طرف شیطان کا ایجنڈا لے کر اسے پھیلانے، لوگوں کو اس کی طرف بلانے اور اسے مزیّن و خوبصورت کرکے لوگوں کو اس کے پیچھے مسحور کرنے والے بھی موجود رہے ہیں۔
مثلاً اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضیات بتانے اور صراطِ مستقیم کی ہدایت و راہنمائی کے لئے انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا سلسلہ شروع فرمایا، جس کی ابتدأ حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کی اور اس کی تکمیل اور انتہا حضرت محمد رسول اللہ ﷺپر ہوئی۔
انسان اول حضرت آدم علیہ السلام کی علمی فضیلت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے جب ملائکہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتوں نے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے سجدہ کرلیا، لیکن شیطان ابلیس نہ صرف یہ کہ اکڑ گیا بلکہ اس نے یہاں تک کہا کہ میں آپ کے صراطِ مستقیم پر بیٹھ کر اولاد ِ آدم کے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں ہر طرف سے انہیں گھیروں گا اور راہِ مستقیم سے ہٹاکر آپ کاشکر گزار نہیں رہنے دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا: ’’ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے لگے گا، تیرے سمیت سب کو جہنم میں ڈالوں گا۔‘‘
ہر زمانے میں انبیاء اور ان کے متبعین اہل ِ ایمان نے راہِ راست، راہِ ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے کی جدوجہد، کوشش اور سعی بلیغ کی، اس کی پاداش میں شیطان ابلیس، ان کے کارندے، دین کے معاند اور مخالف اور آگے چل کر یہود و نصاریٰ نہ صرف یہ کہ ان کے راست باز اور اہل ایمان حضرات کے مخالف ہوئے، بلکہ انہیں قتل کیا، سولیوں پر لٹکایا اور طرح طرح کی ایذائیں اور تکلیفیں دے کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا۔
چونکہ یہ قاتل، ظالم اور سفاک درندے، کبھی اقتدار کے نشے میں، کبھی افرادی قوت و طاقت کے زعم میں اور کبھی مال و دولت کی فراوانی کے خمار میں رعایا، اقلیتوں، غریبوں پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ایسے مظلوموں، مقہوروں اور مجبوروں کی مدد و نصرت اور تعاون کے لئے ان فرعون، ہامان اور قارون کے جانشینوں کے خلاف جہاد کی نہ صرف یہ کہ اجازت دی، بلکہ ایسے ظالموں، جابروں اور سرکشوں کے ٹکرانے کا نتیجہ بعض اوقات شہادت اور موت کی صورت میں نکلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺنے شہادت اور شہدأ کے فضائل اور مناقب بھی بیان کئے ہیں اور حکم دیا : ’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مُردہ مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں شعور نہیں۔‘‘
جیسا کہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جاتے ہیں ان کی نسبت یوں بھی مت کہو کہ وہ (معمولی مردوں کے طرح) مردے ہیں بلکہ وہ تو (ایک ممتاز) حیات کے ساتھ زندہ ہیں لیکن تم (ان) حواس سے (اس حیات کا) ادراک نہیں کرسکتے۔‘‘ (سورۃالبقرہ:۱۵۴)
اور دوسری آیت میں ایسے شہداء کو مُردہ تصور کرنے سے بھی منع فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے، انہیں مُردہ مت خیال کرو ،بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں انہیں رزق بھی ملتا ہے وہ خوش ہیں اس چیز سے جو انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے، ان سے پیچھے رہ گئے ،ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف واقع ہونے والا نہیں اور نہ وہ مغموم ہوں گے، وہ خوش ہوتے ہیں بوجہ نعمت و فضل خدا وندی کے اور بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتا۔ ‘‘ (سورۂ آلِ عمران: ۱۶۹ ـ۱۷۱ )
حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لئے چھ انعام ہیں: ۱ اول وہلہ میں اس کی بخشش ہوجاتی ہے ۲ : موت کے وقت جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے، ۳ : عذابِ قبر سے محفوظ اور قیامت کے فزع اکبر سے مامون ہوجاتا ہے، ۴ : اس کے سر پر ’’وقار کا تاج‘‘ رکھا جاتا ہے، جس کا ایک نگینہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے، ۵ : ۔جنت کی ۷۲ حوروں سے اس کا بیاہ ہوجاتا ہے، ۶ : ۔ اور اس کے ستر عزیزوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ: ’’شہید کو قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی، جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ہوتی ہے۔‘‘ (ترمذی، نسائی، دارمی) یہی وجہ ہے کہ خود حضور ﷺنے شہادت کی تمنا کی، جیسا کہ حدیث میں ہے آپ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ : ۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں۔ (مشکوٰۃ ص:۳۲۹)
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں انسانیت کو صراطِ مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے جہاد کا اعلان کیا، جب کہ ایک طرف مانعین زکوٰۃ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا: جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا، (نماز کی فرضیت کا قائل اور زکوٰۃ کا منکر ہوگا) تو اس کے خلاف جہاد کروں گا۔ اسی طرح جب مسیلمہ کذّاب نے دعویٰ نبوت کیا اور کافی جمعیت اکٹھی کرلی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کے خلاف جہاد کرکے ان کو واصل جہنم اور اس کے فتنے کو نیست و نابود کردیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے تو شہادت کی تمنا اور خواہش دعا کی صورت میں کرنا شروع کردی : ’’اللّٰہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی فی بلد حبیبک‘‘ ...اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما اور میری موت کو اپنے محبوب ﷺ کے شہر میں مقرر فرما... اس دعا کے نتیجے میں انہیں شہادت کا تمغہ ملا۔
ان کے بعد حضرت عثمان غنی ؓنے جامِ شہادت نوش کیا، پھر کوفہ میں حضرت علی المرتضیٰ ؓ کو شہید کیاگیا۔ حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔ اس کے بعد شہدائے کربلا کے قافلہ سالار، نواسۂ رسولؐ، حضرت حسینؓ کو مع خاندان مظلومیت کے ساتھ کربلا کے میدان میں شہید کیا گیا اور اس کے بعد آج تک یہ تسلسل ہے۔ ایک طرف حق والے ہیں اور دوسری طرف باطل اور دین بیزار لوگ ہیں اور یہ کشمکش قیامت تک جاری رہے گی۔
خلاصہ یہ کہ جہاد اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول، ظالم کے ظلم کو روکنے اور دنیائے انسانیت کو امن کی نعمت دینے کے لئے کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اگر شہادت نصیب ہوجائے تو ایک مومن کے لئے یہ سودا سستا ہے۔
اس لئے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’من مات ولم یغزولم یحدث بہ نفسہ، مات علی شعبۃ من النفاق‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الجہاد، ص:۳۳۱)...جو مرگیا اس حال میں کہ اس نے جہاد نہیں کیا اور اس کے دل میں جہاد کا خیال تک بھی نہیں آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبے پر مرا... اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو دین پر عمل کرنے اور اس کی مدد و نصرت کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)