تفہیم المسائل
سوال: اگر امام مسجد کو حجرہ بھی میسر ہو یا وہ مسجد سے چند قدم یا ایک فرلانگ کے فاصلے پر رہتا ہو اور وہ فجر کی نماز کی امامت کے لیے گیارہ ماہ میں خال خال نظر آئے جبکہ پورا رمضان فجر پابندی کے ساتھ پڑھائے تو کیا ایسے امام کو یہ رعایت حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ فجر کی امامت کی ذمے داری مؤذّن یا اپنے کسی نائب کو تفویض کردے، خود انفرادی نماز پڑھے، ایسے امام کی اہلیت امامت کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ (ڈاکٹر ابوحمیس، حیدرآباد)
جواب: امامت ایک کل وقتی منصب ہے ،جو بہت ذمے داری اور پابندی کا متقاضی ہے، امامِ مسجد کے لیے تمام نمازیوں اور خود اپنی نمازوں کی حفاظت بہت ضروری ہے، رسول اللہ ﷺ نے نمازِ فجر اور نمازِ عشاء باجماعت پڑھنے کی اس قدر تاکید فرمائی: ترجمہ:’’ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ان دونوں نمازوں کا ثواب کتنا زیادہ ہے (اگر وہ چل نہ سکتے) تو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے، (صحیح بخاری:657)‘‘۔
مسجد کے اتنے قریب رہائش ہونے کے باوجود امامِ مسجد کا نماز فجر مسجد میں باجماعت نہ پڑھنا مقتدیوں کو تشویش میں مبتلا کرتا ہے اور اس کے تارکِ نماز ہونے جیسی بدگمانی بھی پیدا ہوتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’ امام (مقتدیوں کی نماز کا) ضامن ہے اور مؤذن (اوقات صلوٰۃ کے شروع ہونے کا اعلان کرنے میں) امین ہے ، اے اللہ ! اماموں کو ہدایت عطا فرما اور مؤذنوں کی مغفرت فرما،( سُنن ترمذی:207)‘‘۔
اگر بتحقیق ثابت ہوجائے کہ وہ شخص فجر کی نماز پڑھتا ہی نہیں نہ ادا نہ قضا، تو ایسا شخص فاسق ہے، تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ: ’’جان بوجھ کر سستی کے سبب نماز ترک کرنے والا فاسق ہے ،(جلد1، ص:352)‘‘۔ بقیہ نمازوں کی اس کا امامت کرنا مکروہ ہے، جو پنج وقتہ نماز کا پابند ہو اسے امام بنایا جائے۔ البتہ پڑھی ہوئی نمازوں کے اعادے کی ضرورت نہیں۔
علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ اگر مبتدع یا فاسق کے پیچھے نماز پڑھی تو جماعت کا ثواب مل جائے گا، لیکن اتنا ثواب نہیں ملے گا، جتنا متقی شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا ملتا ہے، ’’خلاصہ‘‘ میں اسی طرح ہے، (فتاویٰ عالمگیری، جلد1،ص:84)‘‘۔
شخصِ مذکور اگر واقعۃً فجر کی فرض کا تارک ہو تو اس کی وجہ سے وہ بہت سخت گناہ گار ہورہا ہے اور ایسے شخص کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، لہٰذا مذکور شخص کو چاہیے کہ فجر کی نماز کا اہتمام کرے اور اب تک کے گناہ پر بصدقِ دل توبہ واستغفار کرے، تاکہ اس کی اقتداء میں نماز بلا کراہت درست ادا ہو سکے۔
تاہم لوگوں کو بلاوجہ بدگمانی کرنے سے احتراز کرنا چاہیے، ممکن ہے وہ اپنے گھر کے قریب کسی مسجد میں فجر کی نماز باجماعت پڑھتے ہوں اور مسجد انتظامیہ نے انھیں فجرکی نماز میں حاضری کا پابند نہ بنایا ہو، جب تک ہمیں دوسرے فریق کا موقف معلوم نہ ہوجائے، ہم کسی شخص کی امامت کے بارے میں حتمی رائے نھیں دے سکتے، واللہ اعلم بالصواب۔