• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

ہم بہ حیثیت امّتِ مسلمہ ہر سال محرم الحرام میں واقعۂ کر بلا کی یاد تازہ کرتے ہیں، محرم الحرام کے شب و روز میں ذکر شہادت کے اوراق نمایاں کئے جاتے ہیں اور آنسوؤں کے ساتھ شہادت امام حسین، اہل بیتِ اطہار اور دیگر شہدائے کربلا رضوان اللہ عنہم اجمعین کو خراج محبت و عقیدت پیش کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی ہمارے ذہن نشین رہنا چاہئے کہ ان یادوں کے دوش پربہ حیثیت امتِ مسلمہ ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں، شہادت کی صبح اسلام کی حیات جاوداں کی تازگی کا درخشاں باب ہے، شہادت مطلوب و مقصود مومن ہے، شہادت امت کی شہہ رگ ِ حیات ہے، شہادت امت کے چہرے کی سرخی کی علامت ہے، شہادت غلبۂ دینِ اسلام کا لازمی جزو ہے، شہادت ہی سے اقامت دین ممکن ہے۔ 

جہاد اسلامی کی پشت پر یہی پیغام و سبق مضمر ہے کہ دین کی بقاء اور اسلام کے غلبے کے لئے جاں نثاری کی بزم آراستہ کرنے کی رسم جاری کی جائے، شہادتِ مومن و مجاہد کی ساعتیں یقینی طور پر مقاصد سے معمور و مزین ہوتی ہیں ،اس لئے واقعۂ کربلا کے پس منظر میں جو تقاضے مضمر ہیں، انہیں ہر لحظہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔

سیّدنا امام حسینؓ نے کربلا میں اپنی ، اپنے رفقاء اور اہل بیتؓ کی جانوں کا نذرانہ بطور شہادت اسلامی تعلیمات اور دین و شریعت کی بقاء و تحفظ کے لئے پیش کیا تھا۔ اس کا واضح مقصد اور مفہوم یہی بر آمد ہوتا ہے کہ دین کے اصل چہرے پر جب بھی غبار ڈالنے کی کوشش کی جائے، تعلیماتِ شریعت کا حلیہ بگاڑنے کی تگ و دو جب بھی سامنے آئے، نظام اسلامی کو جب بھی جڑ سے اکھاڑنے کی مذموم کوشش کی جائے تو ایسی صورت حال میں باطل کے لشکر و سپاہ ، جدید ترین ہتھیاروں اور تمام تر شان و شوکت ،جاہ و شکوہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس کے پنجۂ استبد اد کو مروڑ ڈالا جائے، حق کو اُجاگر کر کے باطل کے مکرو فریب کی دھجیاں بکھیر دی جائیں۔

اسلام نے بڑے سادہ اور فطری نظام حیات و حکومت کا تصور دیا ہے، ’’ ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز ‘‘ کے مصداق طاغوتی قوتیں اور استبدادی طاقتیں ہر دور میں اسلامی نظام حیات و حکومت کو ظلم ، جبر، فسطائیت اور استبداد کا نمونہ بنانا چاہتی رہی ہیں۔ 

اسی لئے حضرت امام حسینؓ نے اپنے وقت کے فرعون و نمرود اور طاغوت کے نمائندے یزید کی اطاعت و بیعت نہ کرکے طاغوت کو پیغام اور امت کو سبق دیا کہ دین و شریعت اور نظام اسلامی میں کسی بھی طرح تبدیلی یا تنسیخ کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ دین ہمیشہ اپنی حقیقی ہیئت اور اصلی صورت ہی میں باقی رہے گا اور اس کے لئے ضرورت پڑنے پرہم اپنی جان بھی وار سکتے ہیں۔ چناںچہ یہی ہوا بھی کہ امام حسین ؓنے اپنے رفقاء کے ساتھ اپنی جان دین پر وار دی، لیکن اسلا م کا حقیقی حسن باقی و برقرار رکھا۔

آج پھر دین اسلام ، شریعت محمدیہ پر اندرونی اور بیرونی حملے ہو رہے ہیں، ان حالات میں ہمیں ہر طرح کے حملوں کے مقابلے میں اسلام پر سختی سے قائم رہنے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ واقعۂ کر بلا اور امام حسین ؓ کی شہادت سے امّتِ مسلمہ کو یہ درس بہت واضح انداز میں ملتا ہے کہ شریعت کو کسی بھی قسم کی مداخلت سے پاک اور محفوظ رکھنا ہے۔

اس کے قانون سے کسی صورت بغاوت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ قوانین اسلامی کی بالادستی اور اقامت دین ہم سب کی اولین ذمہ داری اور فرضِ اعلیٰ ہے۔ اس میں کسی بھی طرح کی قربانی سے دریغ ملت کی موت کے مترادف ہے۔ اس پہلو اور نکتہ نظر سے امت کو مثبت طرز فکر، خلوصِ عمل کے ساتھ سوچنے، غوروفکر اور جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔

بقائے اسلام اور اقامت دین کا یہ مرحلہ ہم سب کے لئے برائی کے تما م راستے بند کردیتا ہے اور استقامت فی الدین اور غلبۂ دین کا درس ازبر کراتا ہے۔ یہی امام حسینؓ اور اہل بیت اطہار ؓسے محبت کا تقاضا ہے کہ ان کی یاد کو برائیوں اور غلط رسوم سے پاک ہو کر منایا جائے۔

امام حسینؓ کی شہادت اور واقعۂ کربلا کی یاد مناتے ہوئے ہمیں اپنے معاشرے کو اسلامی ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لئے خانوادہ ٔاہلِ بیتؓ کی قربانیاں ہمیں راہ عمل فراہم کرتی اور درس عمل دیتی ہیں۔ گویا شہادت حسینی کا پیغام اصلاح عمل و اصلاح معاشرہ بھی ہے۔ ایسے میں ہماری ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ ہم اپنے دین پر سختی سے قائم رہیں۔ اہل بیتؓ کی محبت بھی سلامت رکھیں اور اصحاب رسولؐ سے سچی عقیدت بھی۔

کربلا سے ہمیں احکام دین و شریعت کی اتباع و پیروی کا درس بھی ملتا ہے کہ ظلم و ستم کی خوں ریز آندھیاں بھی خیمۂ حسینی کو نمازوں کے اہتمام سے نہ روک سکیں، ان وفا شعارانِ اسلام کے قدم شریعتِ مطہرہ سے بال برابر بھی منحرف نہیں ہوئے۔ شریعت کا دامن مضبوطی سے تھا میں رکھیں، تاکہ واقعۂ کر بلا کی حقیقی تعلیم عام ہو۔ شہدائے کربلا سے محبت کا تقاضا ان کے نقوشِ قدم پر چلنا ہے کیونکہ یہی نقوشِ قدم حقیقی صراط مستقیم ہیں۔

عالم اسلام اور دنیا کے موجودہ حالات میں اسلامی یعنی حسینی زندگی گزارنے کا عہد ہی ہمارے مسلم تشخص کا ضامن ہے۔ پیغام کر بلا بھی یہی ہے کہ ہماری حیات سے موت تک کا سفر صرف اسلامی احکامات اور حسینی تعلیمات کی روشنی میں طے ہو۔ باقی تمام راستے صراط مستقیم کے بر خلاف کفر، شرک، طاغوتیت اور یزیدیت کی طرف جاتے ہیں، یاد رکھیے۔

جذبۂ جاں نثاری کی تجدید کا نام یاد حسین ہے ، فکر اسلامی کی تشکیل کا نام پیغام کربلا ہے، لہٰذا یزید انِ عصرِ حاضر کو شکست دینے کے لئے اپنے افکار ، عقائد، اعمال و کردار کی اصلاح و تعمیر کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حکم قرآنی بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار ، بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو‘‘ (سورۂ انفال۔۶۰)

بحیثیت امّتِ مسلمہ ہم اپنی اس کمزوری، تہی دامنی اور ’’جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات‘‘ کا مشاہدہ امت کی بے بسی، لاچاری کی صورت میں کر چکے ہیں، یہی وقت کا تقاضا ہے۔ یہی کربلا کا پیغام ہے اور یہی درس شہادتِ حسین ہے۔