چائے اور تربوز والے کی کہانی

May 20, 2024

چائے اور تربوز والے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ چائے والا ٹیکس بھی دے رہا ہے اور لوگوں سے ٹیکس وصول بھی کرتا ہے۔ تربوز والا چاہتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو پھلتا پھولتا دیکھے، ٹیکس نیٹ میں آئے۔ ملکی تعمیر و ترقی میںبھرپور کردارادا کرے۔ دونوں کی کہانی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ ایک بادشاہ ہے تو دوسرا محکوم ہے۔ ایک نے چائے کی دکان سے اپنی سلطنت قائم کرلی، دنیا میں بڑا نام کمایا، بڑی بڑی مملکتوں کے سربراہوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ اپنے لئے کچھ نہیں چاہتا۔ اسے صرف اپنے ملک اور عوام کی خوشی اور خوشحالی چاہئے۔ چائے والے سے ہمارے لاکھ اختلافات سہی، وہ کافر ہے، مسلم دشمن ہے، مسلمانوں، سکھوں، اقلیتوں کا قاتل ہے۔ دنیا اسے سفاک اور عالمی دہشتگرد کے طور پر جانتی پہچانتی ہے۔ وہ خاص ہندو توا سوچ کے تحت دہشت گردی کو اپنے دشمنوں کیخلاف استعمال کررہا ہے۔ اس سے لاکھ اختلاف کے باوجود وہ اپنی سلطنت کا دوسری بار بے تاج بادشاہ بنا کھڑا ہے جبکہ تربوز والا ابھی اسی سوچ میں گم ہے کہ وہ اپنا کاروبار کیسے چلائے؟ اسکی ریڑھی پر پڑے تربوز گل سڑ رہے ہیں۔ کوئی اسکا محافظ نہیں، آئے دن اسے یہی فکر کھائے جاتی ہے کہ وہ بھتہ خوروں سے کیسے جان چھڑوائے، وہ چاہتا ہے کہ اسکے کاروبار کو تحفظ ملے، اپنی آمدن کا کچھ حصہ حکومت کو باقاعدہ ٹیکس کی شکل میں ادا کرے مگر کوئی سرکاری اہلکار، محکمہ اس سے روزانہ کی بنیاد پر بھتہ وصولی نہ کرے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ چائے والے نے اپنے باپ کے ٹی اسٹال پر کام شروع کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں آر ایس ایس کے پلیٹ فارم پر تربیت حاصل کی۔ ہر کام میں انتہا پسندی اسکی سرشت میں شامل رہی۔ سیاست کے میدان میں قدم رکھا توکامیابیاں ملیں۔ گجرات کے مسلمانوں کے قاتل نے ریاست کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ حاصل کرکے کچھ ایسے انقلابی اقدامات کئے کہ جس سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی برسات ہونے لگی۔ وہ انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادیوں کو کچلتا رہا۔ دنیا تماشا دیکھتی رہی۔ اس نے اپنی ریاست میں فنانشل و ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے، رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کو ابتدائی برسوں میں اتنے عروج پر پہنچایا کہ 6.6 ٹریلین بھارتی روپے (دو سو پچاس ارب امریکی ڈالر) کی سرمایہ کاری ہوئی۔ چائے والے نے کچھ ایسی حکمت عملی اپنائی کہ این جی اوز اور کمیونیٹیز کے تعاون سے زمینی پانی محفوظ کرنے کے منصوبے بنائے۔ ان منصوبوں سے چھوٹے چھوٹے ڈیموں کا جال بچھایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسکی ریاست میں بنجرزمینیں سونا اُگلنے لگیں، کپاس کی پیداوار تواتر سے بڑھتی ریکارڈ قائم کرنے لگی۔ چائے والے پر جب کسانوں نے دباؤ ڈالا ، شدید احتجاج ہوا تو اسے بجلی کی تقسیم بارے نئی حکمت عملی اپنانا پڑی۔ اس نے بجلی تقسیم کا پورا نظام ہی بدل کررکھ دیا۔ دیہی و رہائشی علاقوں اور زرعی بجلی کے الگ الگ نرخ مقرر کرکے زرعی انقلاب کی ایسی بنیاد رکھی کہ سستی بجلی سے ٹیوب ویل چلنے لگے۔ کسانوں پرکاشت کاری کے اخراجات کا بوجھ کم ہوا، نتیجہ یہ نکلا کہ زراعت سے آمدن بڑھنے لگی، پھر دنیا نے یہ کرشمہ بھی دیکھا کہ زراعت سے ریاست کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ بڑھتے بڑھتے بڑی صنعتوں کے برابر دس فی صد ہوگیا۔ ورلڈ بینک 2013 ءکی رپورٹ کے مطابق چائے والے کی ریاست معاشی کامیابیاں حاصل کرنے والی پہلی بیس ریاستوں میں شمار ہونے لگی۔ اب یہ چائے والا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور تیسری بڑی معیشت کا پردھان منتری ہے اورتیسری بار بھی وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ چائے والا دنیا کے بڑے بڑے طاقت ور حکمرانوں، سرمایہ کاروں، صنعت کاروں کو اپنے ہاں مدعو کرتا اور اپنے ہاتھ سے بنی چائے کا ایک کپ پلا کر ان سے اربوں ڈالر کے سودے طے کرتا اور انہیں اپنی سلطنت کی ترقی میں شراکت دار بناتا ہے۔ وہ اپوزیشن سے بھی نمٹ رہا ہے، پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں بھی بیٹھتا ہے، اپوزیشن اس کے سیاسی حربوں کے سامنے ناکام نظر آتی ہے لیکن دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ملکی معاشی استحکام کسی صورت متاثر نہ ہو۔ آپسی سیاسی جنگ کے اثرات ریاست کے معمولات کو متاثر نہ کریں۔ ڈانگ سوٹا وہاں بھی چلتا ہے اور یہاں بھی۔ کمال یہ ہے کہ چائے والے کی سلطنت ترقی کررہی اور تربوز والے کی دن بہ د ن لاغر ہوتی جارہی ہے۔ یہ چائے والابھارت کادس سال سے وزیراعظم ہے۔ اس نے اپنے کل اثاثے، آمدن و خرچ کے گوشوارے عوام کے سامنے رکھ کر سب کو حیران کردیا ہے۔ اس کے اثاثوں کی کل مالیت تین کروڑبھارتی روپے سے کچھ زائد ہے، اس کا کوئی گھر نہ کوئی گاڑی۔ اس نے حلفاً اقرار کیا ہے کہ اس کے پاس دو کروڑ چھیاسی لاکھ روپے فکسڈ ڈیپازٹ کی صورت بینک میں موجود ہیں۔اس کی جیب میں نقد صرف باون ہزار نوسو بیس روپے ہیں۔ دو بینک اکاؤنٹس میں اسّی ہزار تین سو چار بھارتی روپے، نو لاکھ بارہ ہزار نیشنل سیونگ سرٹیفکیٹ کی مد میں رکھے ہیں۔ سونے کی چار انگوٹھیاں جن کی مالیت دو لاکھ پینسٹھ ہزار بھارتی روپے بنتی ہے اس کا کل اثاثہ ہیں۔تربوز والا کبھی چائے والے کو دیکھتا ہے کبھی اپنے حکمرانوںسے پوچھتا ہے کہ ہم ترقی کیوں نہیں کرتے؟ ہمارا قومی خزانہ ہر وقت خالی کیوں رہتا ہے۔ ہم ترقی یافتہ اقوام میں بھکاری کے طور پر کیوں مشہور ہوتے جا رہے ہیں۔ تربوز والے کی کہانی یہ ہے کہ وہ صبح سویرے ٹھیلہ لگاتا ہے گاہک آنے سے پہلے کسی ایرے غیرے محکمے کے اہلکار، اعلیٰ افسروں کے نام پر بھتہ لینے پہنچ جاتے ہیں۔ شام تک وہ پھل سبزی یا نقد کی صورت میں کم و بیش دو سے تین ہزار روپے بھتہ دیتا ہے۔ اگر وہ بھتہ نہ دے تو کارپوریشن کے اہلکاراس کا ٹھیلہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ تربوز والا اگلے دن رشوت دے کر ٹھیلہ واپس لاتا ہے، اُدھار پر پھل سبزی خرید کر دوبارہ کاروبار شروع کرتا ہے۔ پھر بھتہ خور آجاتے ہیں، چائے اور تربوز والے کی کہانی میں یہی فرق ہے۔