کیا ریاست حکومت کے چنگل میں ہے؟

May 20, 2024

ریاست حکومت کے زیر نگیں ہے، یہی آئین کی مخفی لیکن حقیقی تشریح ہے جسے قومی سطح پر تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا اوپشن نہیں۔ ریاست حکومت کے در پر ہاتھ باندھے کھڑی ہے اور حکومت کے ہر جائز ناجائز حکم بجا لانے کے لئے تیار ہے۔ملک کا کمزور ڈھانچہ سفارش اور رشوت کی ریت کے ستونوں پر کھڑا ہے، لوگ انصاف کے لئے مارے مارے پھررہے ہیں۔ انصاف کا ذریعہ بننے والے عوامی نمائیندوں کے بند دروازوں پر لگے ہجوم سے اس حقیقت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ منصف و محتسب انصاف کے ایوانوں میں کس قدر گہری نیند میں سوئے ہوئے ہیں اور ان ایوانوں کی حدود میں انصاف کی خریدوفروخت بلا جھجک اور بغیر کسی روک ٹوک جاری ہے۔رشوت اور سفارش کا طاقتور کلچر ملک کو محتاجی، بے راہروی اور احساس محرومی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے اور یہ اندھیرے مجبور عوام کو ان موقعہ پرست ریاست دشمن’’قائدین‘‘ کی اطاعت پر اکساتے ہیں کیونکہ انہیں تھانہ اور کچہری کلچر کے پھیلائے ہوئے ان مستقل اندھیروں سے نکل کر عارضی روشنی میں آنے کا کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیتا سوائے ان ریاست دشمن ’’رہنماؤں‘‘ کی اطاعت کرنے میں جن کے منہ اور چہروں پر انہی مجبور لوگوں کے حقوق کا خون لگا ہوتا ہے۔تھانہ کلچر اقتدار کےایوانوں کی مکمل پشت پناہی میں پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو اپنی مرضی سے سانس لینے سےبھی محروم کرنے کی تدارک میں لگا ہوا ہے اور ریاست کی جانب سے تفویض کئے گئے تمام اختیارات صرف طاقتور طبقہ کی اطاعت اور اس کے مفادات کے تحفظ کیلئے صرف کررہا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اطاعت گزار پولیس اور انتظامیہ کسی نہ کسی طاقتور شخصیت کے اثر میں ہے اور ریاست کے عقائد کے خلاف ’’حکومت‘‘ کرنا اپنا ’’سرکاری‘‘ حق سمجھتے ہیں۔ حکومت کے کسی عام سے کارندے کے حکم پر ساری ریاست مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔سپاہی سے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ریاست کا نمائندہ صرف ’’غیرآئینی اور غیر قانونی‘‘ حکم کی بجا آوری میں مصروف رہتا ہے کیونکہ اسے یہی سبق پڑھایاگیا ہے کہ اس کی ملازمت اور ادارے میں عزت کی بنیاد کرپٹ اشرافیہ کو خوش رکھنے اور عبادت سمجھ کر ان کی

اطاعت کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ کیا کوئی ایک تھانہ یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ان کے تھانے میں انصاف ملتا ہے۔کہاں ہے بی اے ناصر، کہاں ہےاحسان صادق، کہاں ہے زبیر ہاشمی، کہاں ہے عاصم گلزار، کہاں ہے اشفاق احمد خان اور کہاں ہیں وہ لوگ جو کسی شکاری کی طرح کسی منفعت بخش منصب کے پیچھے نہیں بھاگتا بلکہ ریاست کا نمائندہ کہلانے پر فخر کرتے ہیں اور حکومت یا معاشرے کے طاقتور لوگوں کےناجائز کام کرنے سے انکار کی جرات رکھتے ہیں لیکن حکومتوں کے غلاموں کو ان کی موجودگی موافق نہیں اس لئے ہمیشہ منظر سے غائب کر دئیے جاتے ہیں۔کیا چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو معلوم ہے کہ’’تھانہ کلچر‘‘ کیا ہے، عوام کن مشکلات میں گھرے ہیں اور بے گناہ اور معصوم’’تھانہ کلچر‘‘ سےکس قدر متاثر ہوتے ہیں اور یہ کہ اس کی موجودگی میں پولیس اصلاحات ممکن نہیں اور دوسرا اصل سوال یہ کہ کیا وزرائے اعلیٰ ’’تھانہ کلچر‘‘ کا خاتمہ چاہتے ہیں یا گزشتہ 75سالوں سے سیاستدانوں، سرداروں، وڈیروں اور طاقتور اشرافیہ کے تحفظ اور ان کی علاقائی طاقت میں اضافہ کے لئے معاشرے کے ستائے ہوئے محروم طبقے کی آوازوں کو دبانے کے لئے قائم یہ عقوبت خانوں کو مزید’’موثر‘‘ بنانے کی کوششوں میں شامل ہوجائیں گے۔اور اگر انہوں نے سچ کا راستہ اپنایا جس سے اشرافیہ کے’’حقوق‘‘ کو گزند پہنچتی ہو تو طاقتور طبقہ انہیں اقتدار سے باہر پھینک دے گا جو ان کے’’مقاصد‘‘ کے حصول میں رکاوٹ بنیں، حکومتوں کیلئے قابل قبول نہیں۔کیا انتظامی سربراہوں کو علم ہے کہ بے سہارا اور بے آواز عوام کے دو بنیادی مسائل تھانہ اور کچہری کلچر ہیں جن کی موجودگی میں عوام کو ذہنی آسودگی مہیا کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس نظام میں اس کی جڑیں انتہائی گہری ہو چکی ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ معاشرے میں امن قائم کرنے، کرائم فری معاشرہ قائم کرنے اور عوام کو ذہنی آسودگی مہیا کرنے کے لئے تھانے اسی طاقتور طبقے کو ٹھیکے پر دے دیئے جائیں جو پولیس کے ذریعے معصوم لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے اور انہیں سانس لینے کے حق سے بھی محروم رکھتے ہیں۔ تھانے وہ’’ٹریڈ سنٹرز‘‘ ہیں جہاں انصاف کی خردیدوفروخت ہوتی ہے، جہاں بے گناہوں کو تذلیل کی جاتی ہے، جہاں بھاری معاوضوں پر ملزموں کو مجرم بنایا جاتا اور بااثر طبقہ کے گناہ کسی بے گناہ کے دامن میں ڈال کر جرم کی فائیلیں بھری جاتی ہیں، جہاں تفتشی افیسر تفتیش کرنے سے قبل نتیجہ اور مقصد ذہن میں رکھتے ہیں تاکہ اپنے ’’آقاؤں‘‘ کی خواہش یا ہدایت کے مطابق فیصلہ دے سکیں۔یہی معاشرے اور ریاست کی تباہی کا سبب ہیں۔