ایک اچھوتا تخیل

May 20, 2024

ان گنت سلگتے سیاسی موضوعات میں یہ بات شاید آپ کو اہم اور قابل فہم نہ لگے مگر میری دانست میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بصیرت ،عزم اور اخلاص کے فقدان کاہے۔ملکی مسائل کی ڈور سلجھنے کے بجائے اس لئے اُلجھتی چلی جارہی ہے کہ اہم عہدوں پر متمکن شخصیات کے ہاںخود کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھنے کا چلن ہے۔نہ انہیں زمینی حقائق کا اندازہ ہے اور نہ ہی اصل وجوہات و اسباب کا اِدراک۔ان کیلئے تو یہ منصب محض تفریح اور ذہنی عیاشی کا ایک ذریعہ ہے ۔مثال کے طور پر ہم کب سے یہ رونا رورہے ہیں کہ سرکارکے زیر انتظام تعلیمی اداروں کے حالات نہیں سنورتے ۔بچوں کو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہوتیں ۔کلاس روم کم ہیں۔پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ،بیشتر تعلیمی اداروں میں لیبارٹری نہیںاگر ہو تو سائنسی آلات ندارد، لائبریریوں کا تو تصور ہی ناپیدا ہوتا جارہا ہے ،معلمین و معلمات کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب متوسط طبقہ تو کیا غریب لوگ بھی بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کروانے سے کتراتے ہیں کیونکہ لوگ طعنے دیتے ہیں ۔جب میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ماڈل ٹائون لاہور میں تعلیمی اداروں کی حالت زار کے حوالے سے ایک اجلاس طلب کیا اور مجھے خصوصی طور پر شرکت کی دعوت دی کیونکہ ان دنوں میں ان موضوعات پر لکھ رہا تھا۔دوران اجلاس معلوم ہوا کہ جو سرکاری اسکول ناکام تھے اور انہیں نجی شعبہ کے سپرد کردیا گیا ،اب وہ کامیاب ہیں اور بچوں کی بڑی تعداد وہاں تعلیم حاصل کر رہی ہے ۔میاں شہبازشریف نے سوال اُٹھایا کہ آخرکیا وجہ ہے کہ جن اسکولوں سے ہم جان چھڑوالیتے ہیں ،وہ چل پڑتے ہیں ؟میں نے وہاں بھی جواب دیا تھا ،آج اس بات کو پھر دہرادیتا ہوں ۔آپ کسی بھی ضلع میں سروے کرواکے دیکھ لیں ۔قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کے ارکان جو منتخب عوامی نمائندے ہیں ،سینیٹر جو ایوان بالا میں پالیسی ساز کی حیثیت سے تعلیمی نظام کا رُخ متعین کرتے ہیں ،سرکاری افسر مثلاً ڈپٹی کمشنر ،اسسٹنٹ کمشنر،ڈی پی او ،ڈی سی او،تحصیل دار ،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ،رینجرز یا افواج پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے افسر اور یہاں تک کہ سرکاری تعلیمی اداروں کا نظم و نسق چلانے والے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرزکے بچے مہنگے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہوں گے جہاں گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر اور سردیوں میں ہیٹرچلتے ہیں۔یہ تو بہت بڑی بات ہوگئی ،آپ کسی یونین کونسل کے چیئرمین ،کسی مجسٹریٹ ،کسی ایس ایچ او،کسی ہیڈ ماسٹر سے پوچھ لیں کہ ان کے بچے کس اسکول میں پڑھ رہے ہیں ۔جب ان سب کے بچے ایک الگ تھلگ جزیرے پر آباد ہیں تو انہیں سرکاری اسکولوں کی حالت زار سے کیا غرض ؟بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،یہ المیہ بہت گنجلک اور گہرا ہے ۔یہ تو ایک طبقہ ہے جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں مگرانہیں پتہ ہوتا ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی معاشرے میں کہیں کسی شعبہ میں بچوں کو اکاموڈیٹ کرنا ہے مگر جو اوپر بیٹھ کر ملک چلاتے ہیں اور ہماری قسمت کے فیصلے کرتے ہیں ان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔بیشتر سرکاری افسر خواہ ان کا تعلق کسی بھی محکمہ سے ہویا تو خود دہری شہریت کے حامل اور گرین کارڈ ہولڈر ہیں یا پھر ان کی بیوی اور بچے دیگر ممالک کے پاسپورٹ ہولڈر ہیں ،ان کے اثاثہ جات ملک سے باہر ہیں۔یہاں وہ حکومت کرنے آتے ہیں ۔اس ملک اور دھرتی سے ان کے کسی قسم کے مفادات وابستہ نہیں ۔یہ ملک دیوالیہ ہو جائے ،معیشت تباہ و برباد ہوجائے ، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حالات خراب ہوتے ہی وہ ہوائی جہاز کی ٹکٹ لیکر ملک سے باہر چلے جائیں گے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ بھاری پتھر اُٹھانے کی جسارت کی تھی ، اعلیٰ عدلیہ چاہے تو یہ تفصیلات پھر سے حاصل کی جاسکتی ہیں کہ اعلیٰ عہدوں پر براجمان کن شخصیات کے پاس کسی اور ملک کا پاسپورٹ ،شہریت یا مستقل سکونت کے حقوق ہیں۔پارلیمنٹ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوامی مفاد میں قانون سازی کرے مگر آج تک ہمارے منتخب نمائندے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کیلئے قوانین بناتے رہے ہیں۔اگر ہم اس ملک کو صحیح راستے پر گامزن کرنا چاہتے ہیں ،رتی برابر بھی اخلاص ہے تو باقاعدہ آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدغن لگائی جائے کہ کسی بھی سرکاری ملازم یا افسر ،منتخب عوامی نمائندے یا پبلک آفس ہولڈر کے بچے پرائیویٹ اسکول میں نہیں جائیں گے اور سرکاری اسکول میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے پابند ہوں گے۔اگر کوئی بزنس مین ،وکیل ،صحافی ،پراپرٹی کا دھندہ کرنے والا یا کوئی اور شخص جو سرکار کے خزانے سے تنخواہ نہیں لیتا ،وہ اپنے بچوں کو نجی اسکول میں داخل کرواتا ہے تو بہت شوق سے کروائے لیکن سرکارکی نوکری کرنے والوں کے بچے سرکاری اسکول میں ہی جائیں گے۔یقین کریں ،اگر یہ فیصلہ ہوگیا تو سالوں اور مہینوں نہیں دنوں میں سرکاری تعلیمی اداروں کے حالات سنور جائیں گے اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں گے کہ لوگ سرکاری اسکولوںمیں بچوں کو داخل کروانے کیلئے سفارشیں ڈھونڈتے پھریں گے کیونکہ جب ڈی سی ،کلیکٹر ،جج ،ایم پی اے اور ایم این اے کا بچہ سرکاری اسکول میں جائے گا تو سب کی پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ وہاں بہترین ماحول میسر ہو۔

دوسری تجویز یہ ہے کہ دہری شہریت ،پاسپورٹ ،اقامہ یا پھربیرون ملک مستقل سکونت کا استحقاق رکھنے والوں کو کسی بھی عوامی و انتظامی یا منافع بخش عہدے اور سرکاری ملازمت کیلئے نااہل قرار دیا جائے۔وہ شخص جو اس دھرتی سے جڑا ہوا ہی نہیں ،وہ خواہ کتنا ہی قابل ،ایماندار اور مخلص کیوں نہ ہو،اسے کوئی حق نہیں ہے کہ انصاف کی کرسی پر بیٹھ کر ہماری تقدیر کے فیصلے کرے ،پارلیمنٹ کا حصہ بن کر پالیسی بنائے یا پھرانتظامی عہدوں پر براجمان ہو کر ان پالیسیوں پر عملدرآمد کروائے۔شاید آپ کو یہ خیال ،امر محال محسوس ہو ۔لیکن اگر آپ سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کی کٹھ پتلیاں بننے کے بجائے ،کسی کے جیالے اور متوالے بن کر زندہ اور مردہ باد کے نعرے لگانے کے بجائے اپنی حالت خود بدلنے کی ٹھان لیں اور اپنے اپنے حلقوں کے منتخب عوامی نمائندوں پر دبائو ڈالیں تو اس خیال کو حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔