نیم مُلا اور نیم انگریز

March 11, 2014

امیر تیمور تاریخ کا نہایت محیرالعقول کردار ہے جسے شکست خوردہ اقوام نے اپنی خفت مٹانے کیلئے تیمور لنگ کا نام دے ڈالا۔یہ شخص ایسا پتھر دل تھا کہ اپنے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کے لئے ہلاکو خان کی طرح انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنوائے مگر علم دوست ایسا کہ ایک دانشور کی وجہ سے پورے مفتوحہ شہر کو امان دے دیتا۔نہ صرف دونوں ہاتھوں سے بیک وقت تلوار چلاتا بلکہ دائیں اور بائیں ہاتھ سے ایک ساتھ قلم کاری کے جوہر بھی دکھاتا۔حافظہ اس قدر بلا کا تھا کہ اسے اپنی سپاہ کے لاکھوں جوانوں کے نام یاد رہتے اور علم و فضل کا معاملہ یہ تھا کہ اس وقت کے نامی گرامی مفسر،محدث،شعراء،ادیب اور سائنسدان اس سے گفتگو کرتے ہوئے لاجواب ہوجاتے۔ اس کی فتوحات اور کارناموں کا ذکرتو پھر کبھی تفصیل سے کروں گا فی الوقت اس کے علم و عرفان کا ماخذ میرا موضوع ہے۔مجھے اشتیاق تھا یہ معلوم کرنے کا کہ اس کی تعلیم و تربیت کہاں اور کیسے ہوئی ؟ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اس کی تعلیم کے مراحل مختلف مدارس میں طے ہوئے اور صرف امیرتیمورہی کیا، جتنے بھی نامورمسلم حکمران،جرنیل یا سائنسدان ہیں ،سب کے سب مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔کیونکہ مسلمانوں کی تاریخ میں علم کو کبھی عصری اور دینی تفریق کا سامنا نہیں رہا۔وہ درسگاہ جسے آج ہم مدرسہ کہتے ہیں،وہی ہر طرح کے علوم و فنون کے مراکز ہوا کرتے تھے۔مدارس کی موجودہ شکل تو سامراجی دور کی یادگار ہے جب انگریزوں نے برصغیر کے نظام تعلیم پر ضرب لگائی تو دنیاوی و سائنسی علوم کے لئے الگ تعلیمی ادارے بنا دیئے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مدارس کو نہ صرف دینی تعلیم کے لئے مخصوص کر دیا بلکہ ایسے مدارس کی ابتداء بھی سرکاری طور پر تاج برطانیہ کے نمائندوںنے کی۔گورنر جنرل بنگال وارن ہیسٹنگز نے کلکتہ میں اس نوعیت کے پہلے مدرسے ’’مدرستہ العالیہ‘‘ کی بنیاد رکھی جسے بھارتی حکومت نے پہلے کالج میں تبدیل کیا اور اب چند سال پہلے اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔2009ء میں ایک بھارتی دانشور Nilanjama Gupta نے اس سازش کی کچھ گرہیں کھولیں۔ان کی کتاب Reading with Allah:Madrasas in west bengal بھارت اور برطانیہ میں بیک وقت شائع ہوئی۔وہ لکھتے ہیںکہ ہندوئوں کا پاٹ شالا صرف دھرم کے گرد گھومتا تھا لہٰذا جو ہندو اپنے بچوں کو ایڈمنسٹریٹر یا جوڈیشل آفیسر بنانا چاہتے،وہ بھی اپنے بچوں کو جدید علوم پڑھانے کیلئے مسلمانوں کے مدارس میں داخل کراتے کیونکہ اس وقت تک مدارس دینی تعلیم کیلئے مخصوص نہیں تھے بلکہ وہاں ہر طرح کے عصر ی علوم پڑھائے جاتے۔جب جدید علوم کے لئے انگریزی اسکول اور کالج کھل گئے تو مدارس مغربیت کے اس سیلاب سے خود کو بچانے کی غرض سے دینی تعلیم کے حصار میں مقید ہو کر رہ گئے۔
آج حقائق کے اسقدر دھندلا جانے کے باوجود بھی آپ انسا ئیکلوپیڈیا برٹینکا پر چلے جائیں جو آن لائن دستیاب ہے اور اس کے سرچ ٹول میں Madrasah ٹائپ کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس نوع کے تعلیمی ادارے قانون ،عربی گرامر،ادب،ریاضی ،منطق اور نیچرل سائنسی علوم کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ملا نظام الدین محمد کا درس نظامی جو 1748ء تک رائج تھا ،اس میں فلسفہ، حساب، الجبرا، جیومیٹری،فلکیات،طب اور فقہ جیسے مضامین شامل تھے۔خیر آباد اور چڑیا کوٹ کے مدارس تو غالباً فلسفہ اور منطق کے لئے ہی مخصوص تھے۔اس خلیج کو پاٹنے کی آخری کوشش شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کی جن کے شاگردوں کی صف میں مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا حسین احمد مدنی اور مولانامحمد علی لاہوری جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔اس کوشش میں مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور سرسید احمد خان جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے کلیدی کردار ادا کیا۔1909ء میں ’’جامعۃ الانصار‘‘کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس نے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ یونیورسٹی کو باہم مربوط کرنے کی کوشش کی۔طے یہ پایا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو تب تک ڈگری نہیں ملے گی جب تک وہ مدرسے میں جا کر ضروری دینی تعلیم نہ حاصل کر لیں اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلبہ کو اس وقت تک سند جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ یونیورسٹی جا کر انگریزی زبان نہ سیکھ لیں۔مولانا محمود الحسن نے تو انگریزی سیکھنے والے طلبہ کے لئے ماہانہ 15روپے وظیفہ بھی مقرر کیا مگر بہت جلد یہاں کے قدامت پسند اور وہاں کے جدت پسند افراد کی سوچ حاوی ہو گئی اور یہ سلسلہ ختم ہونے سے دونوں ہی اپنے اپنے خول میں بند ہو گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں نیم انگریز اور نیم ملا تیار ہونے لگے۔یہ دونوں طرح کے تعلیمی ادارے دو الگ نوعیت کے انتہا پسند تیار کرنے کی فیکٹریوں میں بدل گئے۔مدارس نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں نے ایسی لادین نسل تیار کی جو دینی شعور سے بے بہرہ تھی۔چونکہ قیام پاکستان کے بعد انگریز کا بنایاہوا نظام جو ں کا توں مستعار لے لیا گیا اس لئے تمام انتظامی معاملات نیم انگریز طبقے کے پاس آ گئے جس نے پاکستان کے نظریاتی تشخص کو دھندلانے کی کوشش کی۔جبکہ مدارس کے طلبہ کی دوڑ مسجد تک ہی محدود رہی،مولوی کو مذہبی شعائر تک محدود کر دیا گیا تو اس نے اپنی دوکانداری چمکانے کے لئے اسلام کی آڑ میں نفرتوں کی آگ خوب سلگائی اوررفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ امتیازی سلوک کی بنیاد پر ایک گروہ نے بندوق اٹھا لی اور تشدد پر اُتر آیا۔اب صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے داڑھی والوں کو ُملا کہہ کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور مدارس والے انہیں لبرل فاشسٹ کہ کر خفت مٹاتے ہیں۔وہ جمہوریت کو کفر سمجھتے ہیں تو یہ اسلام کو اجتماعی معاملات سے بیدخل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی کوشش ہے کہ اپنی مرضی کا اسلام مسلط کر دیا جائے اور یہ چاہتے ہیں کہ شراب و شباب کے ضمن میں کوئی قدغن نہ ہو۔جب آپ ان دونوں طرح کے انتہا پسندوں سے بات کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ نہیں ہم تو اعتدال کی راہ پر ہیں مگر سچ یہ ہے کہ دونوںمختلف انتہائوں پر کھڑے ہیں۔
اتحاد تنظیمات مدارس کے مطابق پاکستان میں پانچ مختلف مکاتب فکر کے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 20ہزار ہے۔تقریباًپانچ ہزار مدارس ایسے ہیں جوکسی وفاقی بورڈ سے منسلک نہیں۔ان 25ہزار مدارس میں 25لاکھ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ہم جب تک ان مدارس کو انگریزوں کی برصغیر میں آمد سے پہلے کے مقام پر نہیں لاتےاور جب تک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تجوید،ترتیل،حفظ،تفسیر اور حدیث کی تعلیم شروع نہیں کرتے تب تک انتہا پسندی ختم ہو سکتی ہے ناں دہشت گردی کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔جب تک مدارس سے خوارزمی،کندی،واقدی،بو علی سینا،عمر خیام،جابر بن حیان اورابوالہیشم جیسے سائنسدان نہیں نکلیں گے اور جامعات سے قرطبی، رازی، زمحشری، امام مالک ، امام بخاری ،امام مسلم جیسے مفسر و محدث تیار نہیں ہونگے،تب تک تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ نہیں تھمے گا۔جس طرح ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اسی طرح انتہاپسندی بھی ہمیشہ انتہاپسندی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔جس دن ہمیں یہ بات سمجھ آگئی کہ مدارس کے نیم مُلا اور کالجوں کے نیم انگریز انتہا پسندی کے فروغ کاباعث ہیں،اس دن توازن و اعتدال کا رستہ خو بخود نکل آئے گا۔