مجھے یاد ہے ذرا ذرا

May 21, 2024

یہ حیرت انگیز ،ناقابل یقین بات زیادہ پرانی نہیں ہے۔ پچھلے ہفتہ کی بات ہے۔ ایک کے بعد ایک عقل دنگ کردینے جیسے ماجرےاور واقعات رونما ہوئے تھے۔ میں بدبخت بوڑھا ہوکر بھلکڑ ہوتا جارہا ہوں۔ میں دو اعصابی ڈاکٹروں کے زیر علاج ہوں۔ ایک نیوروفزیشن ہے اور دوسرا نیوروسرجن ہے۔ دونوں ڈاکٹروں نے متفقہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ متفقہ فیصلے کے مطابق میں تیزی سے بھلکڑ ہوتا جارہا ہوں۔ میں بہت کچھ بھولتا جارہا ہوں۔ یہاں ایک راز کی بات بتادوں میں آپ کو۔ دنیا میں ہمیں ملنے والے سب دکھ سکھ یادرکھنے کیلئے نہیں ملتے۔ دانستہ نادانستہ ہم سے ہوجانے والی تمام بھول چوک ضمیر پربوجھ بن جاتی ہے۔مگر بھلکڑ ہوجانے کے بعد کی ہوئی خطائیں ہم بھول جاتے ہیں۔ تب ضمیر کا بوجھ سانس لینے میں دشواری کا سبب نہیں بنتا۔ گنہگار ہونے کے باوجود ہم خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ آپ پر میں یہ بھی آشکار کردوں کہ بھلکڑ اور غافل ہوجانے کے بعد ہم اپنی زندگی میں بھیانک خلا محسوس کرنے لگتے ہیں۔اگر آپ جزوی طور پر بھلکڑ ہوں توبے چین کردینے جیسی کیفیت آپ صرف بڑھاپے میں محسوس کرتے ہیں۔ ایسی انوکھی کیفیتیں جوانی میں محسوس نہیں کرتے۔پچھلے ہفتہ جو کچھ ہوا وہ کرشمہ سے کم نہیں تھا۔ مکمل طور پر بھلکڑ ہوجانے کے باوجود پچھلے ہفتہ رونما ہونے والا ایک ایک کرشمہ مجھے یاد ہے۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ پچھلےہفتہ کے رونما ہونے والے واقعات آپ نے یاد نہیں رکھے ۔ وہ سب کچھ چمتکار تھا۔ حیران کردینے والے واقعات تھے۔ ایسی روئیداد، ایسی ماجرائیں آپ کیسے بھول سکتے ہیں؟ مجھے یاد ہے ذرا ذرا، تمہیں یاد ہوکہ ، نہ یاد ہو۔ ہمارے سائنس دانوں نے تاریخ رقم کی تھی۔ ہمارا تیار کردہ چھوٹا سا سیارہ چاند پر اترا تھا۔

فقیر کی بات سن کر آپ فوراً مت مسکرایا کریں۔مانا کہ کئی ترقی یافتہ ممالک اپنے اپنے سیارے خلاؤں میں بھیج چکے ہیں۔ مگر ہمارے سیارے کی بات کچھ اور ہے۔ نیل آرم اسٹرانگ نے جب چاند پرقدم رکھاتھا تب پرتھوی پر کچھ غیر معمولی نہیں ہوا تھا۔ کہیں بھی نہ آتش فشاں پھٹ پڑے تھے، نہ طوفان آئے تھے۔ نہ گرج چمک کے ساتھ آسمانوں سے آبشار برسی تھی اور نہ کہیں سونامی آئی تھی۔ زمین پر کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوا تھا۔ مگر چاند پرہمارے سیارے کے اترنے کے بعد ہم نے سرزمین پاکستان پرایک کے بعد ایک کرشمے دیکھے تھے۔ حالانکہ یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ آٹھ دس دن پرانی بات ہے۔ مجھے یاد ہےوہ ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔

پاکستان میں پچاس لاکھ پرائمری کلاس کے بچے اور بچیاں کھلے آسمان کے نیچے زمین پربیٹھ کرتعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تیس چالیس لاکھ بچے اور بچیاں گھر سے ٹاٹ کا ٹکڑا اور پھٹی پرانی بوری لے آتے ہیں اور ٹاٹ اور پھٹی پرانی بوریوں پر بیٹھ کر آسمان کے نیچےتعلیم سے مالا مال ہوتے ہیں۔ میدانوں میں لگنے والے لاتعداد اسکولوں کے استاد تین ٹانگ والی ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہیں اور کرسی کی ٹوٹی ہوئی چوتھی ٹانگ سے بچوں اور بچیوں کی پٹائی کرتے ہیں۔ درخت کے تنے سے لٹکتے ہوئے بلیک بورڈ پربچوں نے لکھ دیا ہے ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری ‘‘۔ چاند پر سیارے کے اترنے کی دیر تھی۔ سیارہ چاند کی سطح پر اترا۔ آنکھ جھپکتے ہی ہزاروں پرائمری اسکولوں کی عمارتیں بن کر تیار ہوگئیں۔ مناسب فرنیچر سے آراستہ کلاس رومز میں بچے اور بچیاں علم کے زیور سے آراستہ ہورہے تھے۔ مسکراتے ہوئے اساتذہ بچوں کو پڑھارہے تھے۔ یہ کوئی آسمانی کرشمہ نہیں تھا۔ یہ ہمارے سیارے کے چاند پر اترنے کا کرشمہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کرشموں یا کرشمات کی بھرمار ہوگئی۔ ہم آئی ایم ایف سے قرض لینے والے مقروضوں کی طرح نہیں تھے۔ہم آئی ایم کی فنڈنگ کررہے تھے۔ دوست ممالک رحم کھاکر ہمیں مقروض نہیں کررہے تھے۔ اس کے برعکس ہم دوست ممالک کی امداد کررہے تھے اور ان کو قرض دے رہے تھے۔کانوں کو یقین نہیں آیا۔

مگر پتہ چلا کہ دوروپے میں ڈھائی کلو پیاز مارکیٹ میں بک رہا تھا۔ اونے پونے بھاؤ پر بکنے والی سبزیوں اور فروٹ سے مارکیٹ لدی ہوئی تھی۔ یہ سب ہمارے سیارےکے چاند پر اترنے کا کرشمہ تھا۔ گندم اور چاول کی پیدا وار نے دنیا بھر کو حیران اور پریشان کردیا۔ دنیا بھر کے بھوکے ممالک کوہم نے پانی کے جہاز اور ہوائی جہاز بھربھر کر گندم اور چاول مفت میں تقسیم کیے۔ یہ کمال بھی سیارے کاتھا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ سرکار کو آناً فاناً سائنس اور ٹیکنالوجی کے کالج اور یونیورسٹیاں ایک روز کے اندر اندر کھولنی پڑ گئیں۔ لوگوں کو صحتمند رکھنے کیلئے ملک میں اسپتالوں کا جال بچھا دیا گیا ۔ یہ سب کچھ میرے سامنے ہورہا تھا۔ اور یہ سب کچھ سیارے کی وجہ سے ہورہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے غربت اور بیروزگاری ملک سےایسے رخصت ہوئے جیسے ہم کبھی غریب اور بیروزگار تھے ہی نہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب نواز شریف نے ایک پہاڑ پر ایٹم بم چلاکر دیکھاتھا، تب ملک میں روزی روٹی کیلئے ترسنے والوں کی تعداد کاشمار حساب کتاب سے دور تھا۔ ملک کے غریب اور مفلسوں کو تھوڑا تھوڑا ایٹم بم کھلایاگیا اور سب کنگلے ایٹم بم کا ٹکڑا کھاکر سکون کی گہری نیند سوگئے تھے۔

میرے بھائیو اور بہنو ہم نے جب بھی ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم، اور آنکھ جھپکتے ہی لاکھوں بدبختوں کو ٹھکانے لگانےکیلئے بم اور راکٹ بنائے، قوم اپنے دکھ درد، بھوک اور بیروزگاری بھول گئی اور سینہ تان کرکھڑی ہوگئی....... سبحان اللہ!!!