مکھی پہ مکھی

March 17, 2014

ہر کام میں مکھی پہ مکھی ماری جارہی ہے نیم صحافتی کمیٹی کے بعد ایک بیوروکریٹک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ لگتا ہے جو چاند پہلی کمیٹی نے دکھایا تھا وہی یہ کمیٹی بھی دکھائے گی طالبان سے طالبان کے مذاکرات کی جو فلم چل رہی ہے یہ فلم ناکام ہوگی اس کی نشاندہی میں نے فلم کے آغاز پر کردی تھی۔ باقی یہ سب تصویری جھلکیاں ہیں، انجام آپریشن ہی ہے ۔ ایک طرف مذاکرات کی فلم ہے تو دوسری طرف دھماکوں کا ’’ورد‘‘ ہے گزشتہ جمعہ کوبھی پشاور اورکوئٹہ میں دہشت گردی ہوئی۔ تقریباً دودرجن معصوم شہری موت کے منہ میں چلے گئے ۔تازہ فراڈ’’ احرارالہند‘‘ نامی تنظیم ہے۔ نام کچھ بھی ہو یہ کام انہی کا ہے جو پہلے یہ کام کرتے تھے۔ حکومت اور طالبان دونوں وقت گزاری کررہے ہیں حکومتی مشکلات زیادہ ہیں وہ ایک طرف طالبان کے معاملے میں پھنسی ہوئی ہے تو دوسری طرف مشرف کا مقدمہ ہے، مشرف کے مقدمے میں بھی دراصل مشرف نہیں حکومت پھنسی ہوئی ہے اب تک کی اطلاعات کے مطابق دومرتبہ پرویز مشرف نے کسی بھی قسم کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکارکردیا ہے۔دراصل مشرف اپنی مرضی کاکام چاہتےہیںاورحکومت اپنی مرضی کا ۔ مریض مشرف بڑا طاقتور ہے اور طاقتورکی بات کہاں ٹالی جاسکتی ہے بڑھکیں مارنے والے یہ بات سمجھ نہیں پارہے۔انہیں چاہئےکہ طاقتوراور کمزور کا فلسفہ سمجھنے کیلئے میاں محمد بخشؒ کا کلام پڑھ لیں اگر پنجابی نہیں پڑھ سکتے توسن لیں اور اگر یہ سارا کام مشکل نظر آرہا ہے تو پھر ڈاکٹر صغریٰ صدف سےکہیں وہ شوکت علی کوبلوا کرمیاں محمد بخشؒ کاکلام سنوا دیں گی ۔
میرے پچھلے کالم پر بڑی لے دے ہوئی تھی کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کرنے کی بھرپور کوشش کی ان کی کوشش یہاں تک رنگ لائی کہ تنقید کرنے والے نصف درجن تک پہنچ گئے معاشرے کے ان ہزاروں افراد کاکیا کیاجائے جن کی تعریفی ای میلز،کمنٹس ، ایس ایم ایس اور فون کالیں میرے پاس آئیں۔میں نے اس کالم میں بھٹو صاحب کی تعریف ہی لکھی تھی ان کی حکمرانی کے ایک پہلو پر روشنی ڈالی تھی کہ آج اس پہلو کے سبب ملک میں اربوں ڈالر آرہے ہیں اور اگر کوئی شخص اس کام کوآگے بڑھارہا ہے تو یقیناً وہ ایک بڑا کام کررہا ہے۔ باقی رہیں بھٹو صاحب کی باتیں تو موجودہ پیپلز پارٹی کوپتہ نہیں کب بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ لیاری گینگ کی پشت پناہی کرو، معلوم نہیں انہوں نے اپنی کون سی تقریر میں فرمایا تھا کہ جب تھر میں بچے مررہے ہوں تم فیسٹیول کے نام پر ناچ گانوں کا خوب بندوبست کررکھنا۔
قائم علی شاہ پرانے بندے ہیں ہوسکتا ہے کہ بھٹو صاحب ان کے کان میں کہہ گئے ہوں کہ ’’ جب تھر میں قحط سالی ہو ،بھوک پیاس عام ہو ، موت تقسیم ہورہی ہو اور اگر ایسے میں تم وہاں جاؤ تو تھر کی دھرتی پر انواع اقسام کےکھانے ضرورکھانا …‘‘ قائم علی شاہ کے ساتھ ساتھ مخدوم امین فہیم نے بھی بھٹو صاحب کے ساتھ کام کیا ہے وہ پیپلز پارٹی کبھی نہیں چھوڑیں گے کیونکہ مخدوم صاحب کے والد جب بیٹے کے ہاتھوں مجبور ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے تواس وقت مخدوم طالب المولیٰ نے مخدوم امین فہیم کے ساتھ ایک شرط رکھی تھی کہ اب مرتے دم تک پیپلز پارٹی نہیں چھوڑنی امین فہیم کے ساتھ وقت نے بعد میں بڑی ناانصافیاںکیںمگروہ اس شرط کے ہاتھوں مجبور تھے ، پارٹی نہ چھوڑ سکے ۔ انہیں متعدد مرتبہ پیش کش ہوئی مگر وہ ہر مرتبہ کھسک گئے جمعہ کی رات قائم علی شاہ پھولوں سمیت مخدوم امین فہیم کے گھر پہنچ گئے وہاں انہوں نے سب اچھا ہے سائیں کی نوید سنائی ۔ گلے شکوے ختم ہوگئے ورنہ شدید اختلافات ہوگئے تھے پتہ نہیں بھٹو صاحب یہ بھی فرما گئے ہوں کہ جب انسانوں کی خدمت کا وقت آئے تم آپس میں اختلافات پیدا کرلینا۔ ایک گزارش میری بھی ہے کہ سائیں ! اخبار دن کے وقت پڑھ لیا کریں، بس ذرا شام سے پہلے پہلے مریم نواز نے درست کہاہے کہ سیاست میاں صاحب سے سیکھیں، میاں صاحب سندھ جاتے ہیں تو زرداری صاحب نہیں تو بلاول بھٹو زرداری ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اسی ساتھ کی وجہ سے ممتاز بھٹو، غوث علی شاہ اور لیاقت جتوئی سمیت دیگر لیگی اراکین ادھر ادھر ہوگئے اپنے بڑے پرانے مخالفین کوفتح کرنے کے بعد میاں صاحب نے اپنا رخ نئے مخالفین کی طرف کرلیا ہے ، وہ چند روز پہلے عمران خان کے پاس بنی گالہ پہنچ گئے خدا کی کرنی ہےکہ ملک پر سیاستدانوں کانہیںکرکٹروں کاراج ہے میاں صاحب اچھے کرکٹر ہیں، چوہدری نثار علی خان اور عمران خان اکٹھےکرکٹ کھیلتے رہےہیں،ایاز صادق بھی شناسارہے مجھے خبر نہیں میرے پڑوس میںکیا مذاکرات ہوئے جو میڈیا میں آیا وہی کافی ہےکہ خان صاحب نے میاں صاحب کی بڑی تواضح کی جو عام طور پر خان صاحب کا خاصہ نہیں ہے ان کے اراکین اسمبلی کوبھی یہ شکایت ہے کہ خان صاحب چائے بھی نہیں پلاتے۔ میاں نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ تواضح کروا آئے ہیں، دونوں طرف سے لین دین ہوا ہے میاں صاحب کو مذاکرات کیلئے عمران خان کی حمایت مل گئی اور عمران خان کوسڑک مل گئی، ایک پارک بھی مل گیا مگر دونوں لیڈروں کویہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر بنی گالہ کے ایک طرف شاندار سڑک بن گئی اور دوسری طرف شاندار سڑک نہ بنی تو پھر پرانے سیاسی کارکن جمیل عباسی عدالت میں چلے جائیں گے حقوق کی جنگ کوئی بھی لڑسکتا ہے جیسے لاہور میں نرسیں ڈنڈوں کی پروا کیے بغیر لڑرہی ہیں جیسے مظفر گڑھ کی لڑکی نے خودسوزی کرلی تھی بس اتنا سا فاصلہ ہی ہوتا ہے زندگی اور موت کے درمیان۔ باقی فخرزمان کا شعر پڑھیں کہ یہ بھرپور ترجمانی کررہا ہے
ہم زیبرا کراس کو محفوظ سمجھے تھے
تیزی سے آئی زیست کی گاڑی کچل گئی