قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی

June 17, 2024

(گزشتہ سے پیوستہ)

رواں برس 16 مارچ کو ایک کالم میں بر سبیل تذکرہ قرار داد مقاصد، لیاقت علی خان اور شبیر احمد عثمانی پر بھی ایک آدھ جملہ چلا آیا۔ اس پر برادرم مجیب الرحمن شامی نے اپنا اختلافی موقف رکھا۔ ایں جانب سے بھی کچھ مودبانہ عرض معروض کی گئی۔ اس پر اطراف و اکناف سے بلند ہونے والے غلغلے سے یوں محسوس ہوا گویا گیاہ سوختنی کے ڈھیر پر چنگاری گر گئی ہے۔’’ اس طرح اپنی خامشی گونجی / گویا ہر سمت سے جواب آئے۔‘‘ محترم مجیب الرحمن شامی اور برادرم خورشید ندیم سے تو مکالمت ممکن ہے کہ ان طوطیان خوش بیان سے دوائر شائستگی میں کچھ سیکھا جا سکتا ہے اور اپنی بات کہی جا سکتی ہے۔ البتہ افغان جہاد کے بقیۃ السیف مجاہدین اور اطراف سیالکوٹ کے خروش زاغ و زغن سے مجھے معاف رکھا جائے۔ اس ملک میں مزعومہ حب الوطنی اور سیاسی خود راستی کی آڑ میں لام کاف کی جو ہوا چلی ہے، یہ درویش اس میدان کا کھلاڑی نہیں۔ ڈیڑھ بات اپنے Locus Standi پر عرض کر کے سلسلہ بیان کو گزشتہ عرضداشت کے تسلسل میں شروع کرتے ہیں۔ درویش کسی لسانی، سیاسی یا مذہبی شناخت سے قطع نظر ہر فرد کا مساوی انسانی مرتبہ اور احترام تسلیم کرتا ہے۔ البتہ درویش کسی پنڈت، پروہت، پادری یا مولوی کے دعوی تقدیس کا مکلف نہیں۔ کھنچیں میر ؔتجھ ہی سے یہ خواریاں۔ تقدیس کی جوئے کم آب غیرمشروط تسلیم و اطاعت کی سنگی چٹان سے برآمد ہوتی ہے اور یہ عاجز غیرمشروط نقد و تحقیق کا جویا ہے۔ قرارداد مقاصد پر میرا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ یہ دستاویز میرے مساوی حقِ شہریت اور حق ِحکمرانی پر عقیدے کی زنجیر ڈالتی ہے جس سے میرے بنیادی حقوق ہی مجروح نہیں ہوتے بلکہ بطور قومی ریاست پاکستان کا دستوری تشخص اس جدوجہد آزادی سے منقطع ہوتا ہے جو بیسویں صدی کے سیاسی تصورات کی روشنی میں حق خود ارادیت کی بنیاد ہر غیرملکی حکمرانوں کے خلاف کی گئی۔ اس جدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح متحدہ ہندوستان کی سیاست میں ایک فریق کے رہنما اور ترجمان تھے اسلئے درویش ان کے ارشادات سے استناد کرتا ہے۔ قائد اعظم ایک سیاسی رہنما تھے۔ انہیں مذہبی پیشوائیت کا دعویٰ نہیں تھا۔ ان کے اقوال اسی سیاسی روشنی میں دیکھے جائیں گے۔ اگر قائد اعظم کی سند میسر نہ بھی ہوتی تو اس عاجز میں اتنا حوصلہ موجود ہے کہ اپنے ضمیر کی روشنی میں پاکستان کی سیکولر شناخت کا مطالبہ کرے کہ یہی ہمارے سیاسی بحران، معاشی بدحالی اور قومی افتراق سے نجات کا نسخہ ہے۔آل انڈیا مسلم لیگ نے مارچ 1940 ءکے لاہور اجلاس میں باضابطہ طور پر تقسیم ہندوستان کا مطالبہ کیا۔ 24مارچ 1940کی قرارداد میں مسلمانوں کے سماجی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کے تحفظ کی غرض سے تقسیم کا مطالبہ کیا گیا۔ اس بنیادی دستاویز کے متن میں اسلام، اسلامی نظام یا اسلامی مملکت کا کوئی اشارہ تک موجود ہو، تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے کسی رہنما نے مجوزہ ریاست کے ’’اسلامی‘‘ ہونے کا ذکر تک نہیں کیا۔یہ قرارداد قائد اعظم کے اس نقطہ نظر کی توثیق تھی جو انہوں نے 7 فروری 1935 کو ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ ’’Religion should not be allowed to come into politics? Religion is merely a matter between man and God۔‘‘ (مذہب کو سیاست میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ مذہب کا معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے۔ ) بیورلے نکولس (Beverley Nichols) نے 1944 میں اپنی تصنیف Verdict on India میں لکھا کہ قائد اعظم نے ان سے کہا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدمہ 5 نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان ایک قوم ہیں ( 1 ) تاریخی اعتبار سے، ( 2 ) اپنے ہیروز کے حوالے سے ( 3 ) آرٹ اور فن تعمیر کے لحاظ سے ( 4 ) موسیقی کے لحاظ سے اور ( 5 ) ان کے پرسنل قوانین ہندوئوں سے الگ ہیں۔ مصنف نے مذہبی اختلاف کے بارے میں سوال کیا تو قائد اعظم نے کہا ’’Partly but not exclusively‘‘ (جزوی طور پر مگر مکمل طور پر نہیں )۔

7 اپریل 1946کے دہلی کنونشن میں ہندوستان کے تمام منتخب مسلم لیگی اراکین اسمبلی شریک تھے۔ اس اجلاس میں حسین شہید سہروردی کی قرارداد پر 1940 کی قرارداد لاہور میں ترمیم کر کے ’ریاستوں‘ کی بجائے ’ریاست‘ کا لفظ شامل کیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں شبیر احمد عثمانی بھی شریک تھے۔ یہاں بھی کسی مسلم رہنما نے مجوزہ پاکستانی ریاست کو ’اسلامی ریاست‘ قرار نہیں دیا۔ اس تاریخی اجلاس میں قائد اعظم نے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا، ’’ہم کس چیز کے لئے لڑ رہے ہیں؟ ہمارا ہدف کیا ہے؟ مذہبی حکومت نہیں، ہم کوئی مذہبی ریاست قائم نہیں کرنا چاہتے۔ مذہب اپنی جگہ ہے اور ہمیں عزیز ہے۔ مذہب کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں دنیاوی مفادات کا خیال تک نہیں آتا۔ لیکن زندگی میں اور چیزوں کی بھی اہمیت ہے۔ ہماری معاشرت، معاشی زندگی۔ سیاسی اقتدار کے بغیر ہم اپنے عقیدے اور معاشی زندگی کا تحفظ کیسے کریں گے؟ ـ‘‘قائد اعظم کو اس اہم موقع پر التزاماً ’’مذہبی ریاست‘‘ کی نفی کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس لئے کہ اس اجلاس میں مسلم لیگ کے ایک ٹولے نے ’’اسلامی ریاست‘‘ کے قیام کا اعلان کرانے کی کوشش کی تھی لیکن قائد اعظم مزاحم ہوئے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ قبل ازیں 1944۔ 45 میں راجہ صاحب محمود آباد بھی ’’اسلامی ریاست‘‘ کی وکالت کرنے پر قائد اعظم سے گوشمالی کروا چکے تھے۔ راجہ صاحب مسلک کے اعتبار سے اہل تشیع تھے تاہم اپریل 1946کے کنونشن میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کا سوال اٹھانے والے کچھ دیگر مسالک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان حضرات کی ریشہ دوانیوں سے لاتعلقی رکھتے ہوئے قائد اعظم نے اس اجلاس میں قرارداد کے ذریعے کیبنٹ مشن پلان منظور کرنے کا اعلان کیا۔ یہ منصوبہ مکمل طور پر سیاسی نکات پر مبنی تھا اور یہ قرارداد اس امر کا ثبوت تھی کہ قائد اعظم ہندوستان میں دستوری تحفظ چاہتے تھے۔ کسی ’’اسلامی ریاست‘‘ کا حصول ان کا مطمح نظر نہیں تھا۔ (جاری ہے)