برطانیہ میں جیت کس کی ۔۔۔۔۔؟؟؟

June 24, 2024

رابطہ۔۔۔۔ مریم فیصل
بالآخر برطانوی وزیراعظم رشی سوناک کو برطانیہ میں عام انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑا کیونکہ لوکل کونسلزکے انتخابات میں ان کی پارٹی نے اچھی خاصی شکست کا منہ دیکھا ہے اور پھر رشی سوناکبرطانیہ کے وزیر اعظم عوام کی مرضی سے تو منتخب ہوئے بھی نہیں ہوئےہیں اور برطانیہ کی سیاسی روایات کے مطابق انھیں آ ج نہیں تو کل عوام کی عدالت میں تو جانا ہی تھا۔ یہی وہ صیح وقت ہے جب عوام کی آواز سنی جائے کیونکہ کوویڈکا ذور ٹوٹ چکا ہے، مہنگائی چار سال بعد نیچے جانا شروع ہوگئی ہے اور برطانیہ کی معیشت بہتری کی جانب مکمل طور پر تو نہیں گئی ہے لیکن اس راستے پر واپس آضرورآ رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ سب کریڈیٹ ٹوری پارٹی اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش ہی کرے گی۔ برطانیہ میں عام انتخابات کے لئے انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے ۔ لیبرپارٹی اور حالیہ حکمراں جماعت ٹوری تو پوری تندہی کے ساتھ اس مہم میں گھر گھر جاکر عوام کو اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے قائل کر رہی ہیں۔ ساتھ ہی چھوٹی پارٹیاں بھی اس مہم میں خاصی متحرک نظر آرہی ہیں یسے کہ گرین پارٹی اور ریفارم یوکے۔ کیونکہ اس بار کے انتخابات میں دونوںبڑی پارٹیوں کے صد فیصد جیت کے امکانات پچھلے انتخابات کے مقابلے میں ففٹی ففٹی ہیں۔ یہ ہم اتنے یقین سے اس لئے کہے رہے ہیں کیونکہ ٹوری پارٹی تو 14سال اور تین وزیر اعظم اس ملک پر قربان کرچکی ہے اس سب کے بعد فی الحال اس پارٹی کے پاس برطانوی عوام کو دینے کے لئے کچھ باقی نہیں بچا ہے اور دوسری بڑی جماعت جو مزدوروں کی آواز بنتی تھی۔برطانیہ میں اب وہ مزدور طبقہ ہے ہی کہا ں جو اپنے مسائل کے حل کے لئے لیبر پارٹی کے کندھے کا سہارا لیتا تھا اور پھراس پارٹی کا سب سے بڑا ’ ڈرا بیک ‘ یہ بن گیا ہے کہ اسے بلئیر اور گورڈن براون جیسے لیڈزر نصیب ہی نہیں ہو رہے جو اسے دوبارہ سے عوام میں مقبول بنا سکے۔ حالانکہ کوربن کے بعد اسٹارمر کوشش تو بہت کر رہے ہیں کہ این ایچ ایس کے سہارے سے برطانیہ کی وزرات سنبھالنے کا اعزاز حاصل کر لیں لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ فلسطین کے حامی سوشل میڈیا کے اس دور میں برطانوی عوام کے ذہنوں میں اسٹارمر کو برطانیہ کے نئے وزیر اعظم کے خانے میں مکمل طور پر فٹ ہونے نہیں دے رہے ہیں ۔ بہرحال عام انتخابات کے بعد کوئی تو برطانیہ کا وزیر اعظم بنے گا ہی اور ابھی جو برطانوی عوام کا مزاج اور انداز ہے وہ صاف بتا رہے ہیں کہ اس بار کوئی بھی بڑی جماعت واضح اکثریت سے جیت نہیں پائے گی بلکہ برطانیہ میں لٹکی ہوئی حکو مت بننے کے امکانات زیادہ روشن ہیں جس میں کسی چھوٹی جماعت کے آگے آنے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ برطانوی عوام بھی اب کسی نئی لیڈر شپ کو آزمانے کے موڈ میں ہیں ۔