عوامی حقوق کی جنگ

June 28, 2024

تحریر۔۔۔ ایم اسلم چغتائی ۔۔۔ لندن
سونے کے نوالے لے کر پلنے والے جاتی امرا، لاڑکانہ ہاؤس جیسے محلات میں رہنے والے لندن اور دبئی میں اربوں کی جائیداد کے مالک کروڑوں روپوں کی گاڑیاں رکھنے والوں وی آئی پی کلچر میں پلنے والے وڈیرے روایتی سیاستدانوں اور حکمرانوں کو عام غریب انسان کی زندگی کی مشکلات کا کیا اندازہ ہو سکتا ہے، اس کی غربت اس کی بے بسی کا اندازہ تو وہی لگا سکتا ہے وہی محسوس کر سکتا ہے جو ایسی تکالیف اور مشکلات سے گزرا ہو یا گزر رہا ہو جس نے خود غربت دیکھی ہو بے روزگاری کا سامنا کیا ہو ناانصافی معاشرتی مشکلات کا سامناکیا ہو۔ ایک جمہوری فلاحی عوامی ریاست میں عوام کے بنیادی حقوق بن مانگے ان کی دہلیز پر ملنے چاہیں، اگر عوام کو ان کے بنیادی حقوق ملنے پر ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور حقوق نہیں دیئے جاتے تو پھر ’’عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘‘ جیسی عوامی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں پرامن عوام کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ سڑکوں پر آئیں منگلا ڈیم جو پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم اور دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے، تقریباً سالانہ 1500 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ ڈیم آزاد کشمیر کے علاقے میں 1966کو بنایا گیا۔ عوام نے اپنے گھر اور قبریں پانی کی نذر کئے اور قربانی دی۔ ڈیم کی تعمیر کے وقت آزاد کشمیر کے عوام کو مفت بجلی دینے کا وعدہ کیا گیا تھا آزاد کشمیر میں بجلی کی کل 385میگاواٹ ضرورت ہے مگر ان کو یہ بجلی مفت فراہم کرنے کے بجائے آزاد کشمیر حکومت سستے داموں خرید کر ٹیکس وغیرہ عائد کرکے آزاد کشمیر کے عوام کو چالیس روپے سے زائد فی یونٹ فروخت کر رہی تھی۔ آزاد کشمیر کے عوام کی ڈیمانڈ تھی کہ اگر بجلی مفت دینے کا وعدہ نہیں نبھایا تو اس کی قیمت جائز مقرر کی جائے اور بنیادی استعمال کی چیز آٹے پر سبسڈی دی جائے مگر حکومت ٹال مٹول کرتی رہی تو پھر حالیہ پچھلے دنوں عوامی تحریک نے زور پکڑا لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکر دیا گیا۔ ڈڈیال آزاد کشمیر میں اس تحریک نے زور پکڑا عوام سڑکوں پر آئے تو مظاہرے کے دوران وہاں کے ایس ڈی ایم نے مظاہرے کے دوران کسی شخص کو تھپڑ دے مارا تو عوام مشتعل ہوگئے۔ پولیس اور عوام کے درمیان لڑائی ہوئی عوام پر لاٹھیاں برسائی گئیں آنسو گیس بھی چھوڑا گیا پنجاب سے بھی پولیس اور رینجرز بلائے گئے۔ اس غیر سیاسی عوامی تحریک نے مزید زور پکڑا جس کی رہنمائی علاقہ اندرہل ڈڈیال کے نوجوان رہنما مہران خواجہ کر رہے تھے۔ اگر یہ عوامی تحریک نہ چلتی تو حکمرانوں کو کیا پروا تھی کہ بجلی اور آٹے کی قیمتیں کم کرتے، آٹے کی قیمت بھی60 روپے سے کم کرکے 50 روپے فی کلو مقرر کر دی گئی۔ اگر آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام اپنے حقوق حاصل کرنا چاہتےہیں تو ایسی تحریک کو رکنا نہیں چاہئے جاری رہنا چاہئے۔ ایسی تحریکیں مالی و جانی قربانی مانگتی ہیں۔ عوام کے پیسوں سے یہ خاندانی حکمران لاکھوں میں تنخواہیں لیتے ہیں، لاکھوں کروڑوں کی گاڑیاں اور پٹرول مفت سفر بھی سرکاری اخراجات پر کرتے ہیں۔ ایسے ملک میں جہاں لاکھوں افراد کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں حکمران ایسی عیاشیاں کرنی چاہیں اور ایسی مراعات حاصل کرنی چاہیں ہرگز نہیں، ان سیاستدانوں کے بینک بیلنس اور جائیدادیں بیرونی ممالک میں ہیں اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں یہ سیاسی کاروبار کرتے ہیں حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اب ختم ہونا چاہئے اور دنیا کے ساتھ چل کر آگے بڑھنا ہے۔