نشہ مختصر لذت، موت تک کا روگ

June 30, 2024

حرف بہ حرف۔۔۔ رخسانہ رخشی، لندن
’’ایش ٹرے‘‘ جس کا مطلب راکھ کی پلیٹ یا چھوٹی سی طشتری ہے، بالکل اس طشتری میں راکھ ہی انڈیلی جاتی ہے۔ اب اس ایش ٹرے میں سگریٹ کے مختصر سے ٹوٹے، راکھ کے ساتھ ایک سوئی کے ساتھ سرنج بھی پڑی دکھائی دیتی ہے۔ جس کا مطلب یہ کہ اس راکھ اور اس کے دھوئیں نے تمہیں اس سے آگے تک کا لطف روشناس کرادیا۔ زندگی کے اس سفر کی کچھ تلخیاں تم اس ٹرے میں ڈال کر سمجھتے ہو کہ بس اب تمام فکر اور مصائب اس ایش ٹرے میں جھاڑ دیے ہم نے۔ تو سرخرو تو غموں، فکروں سے پھر بھی نہ ہوئے۔ایک انسان کی زندگی بھی ایسی ہی طشتری پر سوار ہے، سوار باہمت ہو تو زمانے کی کٹھن راہیں عبور کرتا اس طشتری پہ بھاگا چلا جاتا ہے اور اگر سوار کمزور اعصاب کا ہو تو وہ خود کو اس ایش ٹرے کے راکھ و دھوئیں میں گرا دیتا ہے، وہ اسی کو اپنا علاج سمجھتا ہے۔دھواں، آگ اور راکھ کا ہونا لازم و ملزوم ہے۔ یہ کائنات بھی تو رب تعالیٰ نے سوچ کر ہی بنائی ہے۔ راکھ اور دھوئیں سے ملتے جلتے رنگ کا آسمان بنایاتو وہیں چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کا جہان بھی آباد کردیا۔ اسی طرح زمین پر انسان اور دوسرے جان داروں کا جہان بھی آباد کیا۔ اسی راکھ، دھوئیں اور آگ سے کچھ اور کام لینے کی بجائے انسان کمزور بن کر اسی راکھ، دھوئیں اور آگ میں خود کو جھلساے لگا۔ اسی ’’ایش ٹرے‘‘ کی بجھی راکھ دھوئیں میں خود کو بھی گل کرنے کا ارادہ کیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان جیسی بہترین مضبوط تخلیق خدا کی کیوں خود کو کمزور بنالیتی ہے۔ معصوم چھوٹے بچوں کو گرد سرد ہوا سے اس لیے بچایا جاتا ہے کہ وہ بڑا ہوکر دیگر مسائل و حوادث اور پریشان زندگی بھر کا عذاب سمجھ کر کمزور پڑ جاتے ہیں اور یہ ہی کمزوری انہیں برے راستے دکھانے لگتی ہے۔ وہ زندگی کی طشتری میں جمی راکھ بن جاتے ہیں۔ دھواں بن کر اڑنے لگتے ہیں اور کہیں تو دھوئیں کو اپنے اندر سمو کر آگ کی طرف بڑھ جاتے ہیں کہ
سفر کا بوجھ برابر رہا ہے دونوں پر
جہاں جہاں بھی تھا پانی وہیں وہیں تھی آگ
زندگی بھلے ہی ایک طشتری ہے گر اسے ہرگز راکھ والی پلیٹ نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس پر چاندی کی ٹھنڈی طشتری جان کر اڑان بھرنا چاہیے۔ کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی کے مسافر بن کر اس کے ہمرکاب ہونا چاہیے۔ ہماری محرومی اور عدم برداشت ہمیں زندگی میں کمزور نہیں کرتی بلکہ مضبوط بناتی ہے کہ وہ الگ بات کہ زندگی کے بہت سے معاملات سے انسان دلبرداشتہ ہوجاتا ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اپنی زندگی ہی تیاگ دی جائے۔ زندگی کو مایوسیوں، ناامیدی اور محرومیوں کی نذر کرکے زندہ لاش بننے کا راستہ چنا جائے۔ گھر والوں کو بھی شدید اذیت دی جائے۔ 26جون کو ایک فکرانگیز اور احساس ترین دن منایا جاتا ہے۔ جس کے ت دارک کے لیے دنیا بھر سے کوششیں کی جاتیہیں مگر پھر بھی ناکامی ہے، کیوں نہ ہو کہ دنیا میں تباہی کے جتنے بھی سامان ہیں، اسلحہ ہویا پھر نشے کے زہر یہ پھیلتے ہیں تورکتے نہیں ہیں۔ اس سے علاوہ طرفہ تماشہ یہ کہ اس زہر کو زبان و دماغ کا لذیذ ذائقہ سمجھ کر استعمال کرنے والے بھی اپنی تباہی کا نہیں سوچتے، بس اس زہر کو منہ سے لگاکے کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اس کے عادی و علت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے نشے کو اگر چند مرتبہ چکھ لیا جائے تو یہ نشہ مختصر لذت کے ساتھ آپ کو موت تک کا روگ تحفے میں دیتا ہے اور موت سے پہلے تک آپ کو چلتے پھرتے معاشرے میں زندہ لاش بنائے رکھتا ہے۔ آپ اس سے راہ فرار نہیں لے سکتے۔ اپنی قوت مدافعت اور رشتے داروں کی بے پناہ محنت اور لگن سے ہی ایسے عادی افراد نجات پاسکتے ہیں، نیز ایش ٹرے میں بھی نہیں گرتے۔ والدین کے لیے سب سے بڑا غم ہی یہی ہے کہ اس کی اولاد نیک راہ سے ہٹ کر بد راہ پر چلنے لگے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہر چیز سے بیگانہ و بے پرواہ ہوکر چلتی پھرتی زندہ لاش ہوجائے۔ 26سالہ لیلیٰ بتا رہی تھیں کہ میں ایک شریف اور معزز گھرانے سے ہوں۔ 18سال کی عمر میں میری شادی ہوئی۔ میرے شوہر عموماً گھر سے غائب رہتے۔ ایسے حالات میں لیلیٰ تنہا ہوگئیں، کیونکہ سرال والوں کا رویہ بھی ان سے بہتر نہیں تھا۔ وہ امید سے ہوئیں تو والدین کے پاس جانا پڑا۔ پھر حالات اس مقام تک پہنچے کہ انہیں طلاق لینا پڑی۔ ایک جدوجہد اور تنہائی نے مجھے سب ہی سے الگ تھلگ کردیا۔ یوں میں نشے کی طرف مائل ہوگئی۔جب میری حالت بہت بری ہوگئی اور میں اس ماحول کی عادی ہوئی، بس پھر ہر وقت نڈھال سی کونے میں پڑی رہتی۔ گھر والوں نے کوشش کرکے مجھے اس اندھے کنویں میں گرنے سے بچایا، ان سے میری حالت نہ دیکھی گئی اور مجھے زبردستی بحالی مرکز پہنچا دیا، جہاں انسداد منشیات و جرائم کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے U-NODC کے تربیت یافتہ ٹرینرز نے انہں امید کے سفر کی روشنی دکھائی۔ یو این او ڈی سی کے یہ ماہرین پاکستان میں تربیت کررہے ہیں، دوسرے لوگوں کی کہ نشے سے لوگوں کو بچایا جاسکے۔ ایسے کئی پاکستانی اور عالمی صحت کے اداروں کو سلام ہے جو نسلوں کو بچا رہے ہیں۔