فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال توہین عدالت کیس کا تفصیلی فیصلہ آگیا، ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری

July 01, 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) نے سینیٹر فیصل واوڈا اور رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال توہین عدالت کیس میں ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس جاری ہونے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس عقیل عباس، جسٹس نعیم افغان نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا اور ساتھ ہی 34 چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کردیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ 34 ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹس پیمرا کے ذریعے بھیجا جائے، چینلز 2 ہفتوں میں شوکاز نوٹس کا جواب سپریم کورٹمیں جمع کروائیں۔

شوکاز نوٹس میں استفسار کیا گیا کہ جواب میں بتائیں کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں ہونی چاہیے؟

سپریم کورٹ نے چینلز سے استفسار کیا کہ کیا پریس کانفرنس اشتہارات کے ساتھ نشر ہوئی تھی؟ کیا اس دوران کوئی اشتہارات چلائے گئے تھے؟

سپریم کورٹ نے چینلز سے سوال کیا کہ کیا پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد اشتہارات نشر ہوئے تھے؟ کیا پریس کانفرنس کو دوبارہ نشر کیا تھا؟

عدالت عظمیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا چینلز نے پریس کانفرنس سے مخصوص خطاب نشر کیا تھا؟ ٹی وی چینلز نے اشتہارات کا کتنا پیسہ وصول کیا؟

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ شوکاز نوٹس کے جواب پر آپریشنل ہیڈز، چینل مالکان یا شیئر ہولڈرز کے دستخط ہوں۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وکیل صفائی فیصل صدیقی کے مطابق ابتدائی جواب جمع کروادیا ہے، جس پر کسی چینل کے مالک نہیں بلکہ وکیل صفائی کے دستخط موجود ہیں، جواب پر دستخط چینل مالکان کے نہیں اس لیے جواب نہیں مانا جائے گا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ تمام چینلز کی جانب سے دلائل کم و بیش ایک ہی طرح کے ہیں، بادی النظر میں چینلز کا جواب اطمینان بخش نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پریس کانفرنس پر مصطفیٰ کمال، فیصل واوڈا کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوئی۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں بولنے سے قبل احتیاط ضروری ہے، بنیادی حقوق کے نفاذ کو یقینی بنانا عدالت کی آئینی ذمے داری ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 19 میں آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت کو آرٹیکل 14 میں پرائیویسی کے حق پر فوقیت نہیں دی جاسکتی۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کسی پر بھی بشمول ججز اور عدالتوں پر بہتان تراشی کی اجازت نہیں دیتا۔

تفصیلی حکم نامے میں سپریم کورٹ نے نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احکامات اور امام غزالی کے اقوال کا حوالہ دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کسی بھی فرد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار رکھتی ہے، جو زیرالتوا کیس کے حوالے سے تعصب دکھائے۔

عدالت عظمیٰ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عدالت کسی بھی فرد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار رکھتی جس سے عدالت کی توہین ہو۔

فیصلے میں کہا گیا کہ پیمرا کے وکیل نے مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی پریس کانفرنسز کی ریکارڈنز عدالت میں جمع کروائی ہیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر جواب مان لیا جائے تو چینلز کو پریس کانفرنس نشر کرنے کا جواز مل جائے گا اور ذمے داری نہیں دکھائی جائے گی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ وکیل صفائی فیصل صدیقی نے کہا کہ پریس کانفرنس کے مواد پر توہین عدالت لگتی ہے، چینلز کے مطابق پریس کانفرنس نشر کرتے وقت کیا کہا گیا؟ ان کی ذمے داری نہیں۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ چینلز کے مطابق توہین عدالت کی کاروائی شروع کرنے کےلیے غلط عزائم ہونا ضروری ہیں، چینلز کے مطابق چینلز کا حق ہے کہ تمام پریس کانفرنسز کو لائیو نشر کریں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال نے لکھ کر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی اور عدالت کو معافی نامے سے زبانی آگاہ بھی کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایسی کوئی وجہ نہیں بنتی جس سے مصطفیٰ کمال اور فیصل واوڈا کی معافی پر شک کیا جاسکے، اس لیے دونوں کو جاری کردہ شوکاز نوٹس واپس لیے جاتے ہیں۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر فیصل واوڈا، مصطفیٰ کمال نے دوبارہ کچھ ایسا کیا تو دونوں کو نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں جھوٹ آسانی سے پھیلتا ہے اور مٹایا نہیں جاسکتا، موجودہ دور میں بولنے سے قبل خصوصی دیکھ بھال کرنا ضروری ہے۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا کہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو معاشرہ گندگی کا شکار ہوگا، ڈس انفارمیشن حقائق اور سچ کو ختم کر دیتی ہے، جھوٹ بولنے والے نفرت پھیلاتے، رفاقتیں اور خاندانوں کو نقصان پہنچتا ہے، جھوٹ سے اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے، جھوٹ سے پیدا ہونے والے نقصانات ناقابل تلافی ہیں۔