سیاست کو دوبارہ عوام میں لانے کی ضرورت

March 23, 2014

پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کس نے دیئے اور کیوں دیئے؟ اس بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے ۔ اگر کوئی پوچھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’’پاکستان سپورٹ فنڈ‘‘ کے بارے میں سوال کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے حالانکہ یہ بات کہنے والوں کو اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ اس رقم کے بارے میں قوم کو صحیح طور پر نہ بتایا گیا تو اس کی شرمساری ختم نہیں ہو گی۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے صرف اتنی وضاحت کی ہے کہ پاکستان سے نہ کسی ملک نے فوج مانگی ہے اور نہ ہی فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ ہے۔ اس رقم کے عوض پاکستان کو اگر کوئی کام نہیں کرنا ہے تو بھی صاف صاف بتا دینا چاہئے کہ یہ رقم کس ملک نے دی ہے اور رقم دینے والے ملک کا مقصد کیا ہے، آخر کس بات کی پردہ داری ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ بادشاہت قائم ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے قومی خزانے سے 500 ارب روپے سے زیادہ رقم نکال کر ’’ گردشی قرضوں ‘‘ کے نام پر خرچ کردی گئی ۔ کسی سے پوچھا تک نہیں گیا ۔ پاکستان میں کوئی احتساب بھی نہیں ہے اور نہ ہی قومی دولت کو خرچ کرنے کے لئے کوئی موثر قانون ہے ۔ امریکی صدر کو بھی اتنی بڑی رقم اپنی صوابدید پر خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ آج تک قوم کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ رقم کن لوگوں یا اداروں کو کس مد میں ادا کی گئی ۔ اسی طرح بیرون ملک سے جو پیسہ آتا ہے، اس کی آمدن اور خرچ کا بھی کوئی موثر قانون نہیں ہے ۔ پوری دنیاکو یہ شبہ تھا کہ پاکستان سے عسکریت پسندوں کو ہتھیار دے کر شام بھیجا جائے گا یا خلیج فارس کے بعض علاقوں میں بھیجا جائے گا۔ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے خلیجی حکمرانوں نے مدد طلب کی ہے۔ پہلے غیر جمہوری حکمرانوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا تھا کہ انہوں نے دوسروں کی جنگ میں پاکستان کو دھکیل دیا ہے اور آج ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پاکستان دنیا کا انتہائی غیر محفوظ اور بدترین خانہ جنگی کا شکار ملک بن گیا ہے ۔ اس وقت لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں ایک جمہوری حکومت دوسروں کی لڑائی میں پاکستان کو جھونکنے کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ خوف کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگوں کو اصل باتیں بتائی نہیں جا رہی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے موجودہ حکمران اپنی سیاسی طاقت کہیں اور سے حاصل کر رہے ہیں ۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ہونے کے باوجود بیرونی قوتوں کی مداخلت اور بیرونی سرمائے کے کردار میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا عوام پر اور ریاست کا اپنے اداروں پر انحصار ختم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ریاست دونوں کا غیر ریاستی اور غیر سیاسی عناصر پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے ۔ تشدد اور انتہا پسندی پاکستان کا برآمدی مال بن گیا ہے ۔ موجودہ دور حکومت میں اس صورت حال کا نہ صرف تدارک نہیں کیا جا رہا بلکہ اسے مزید تقویت پہنچائی جا رہی ہے ۔ شریف برادران کا انداز سیاست اور انداز حکمرانی بہت مختلف رہا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب پاکستان جمہوریت نہیں بلکہ اسی انداز سیاست اور انداز حکمرانی کے تجربے سے گزر رہا ہے ۔ گورننس کا بھی الگ انداز ہے اور ترقی کا بھی الگ نظریہ ہے ۔موجودہ حکمران اخباری خبروں پر نوٹس لینے، چھاپے مارنے ، گڈ گورننس کی ’’مثالیں‘‘ قائم کرنے ، مخصوص قسم کی ترقی کے ’’شوکیس‘‘ بنانے، افسروں کو برطرف کرنے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے اور اچھے منتظم کے طور پر اپنی دھاک بٹھانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اس کے باوجود پنجاب کے بعض علاقے سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعض غریب علاقوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں ۔ چولستان کی طرف توجہ اس وقت دی گئی جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے دبے لفظوں میں تھر کی صورت حال کو سندھ حکومت کی نااہلی سے تعبیر کیا اور میڈیا نے چولستان کی صورت حال پر بھی لکھنا شروع کیا ۔
وفاقی حکومت نے کراچی کی صورت حال کو بھی سندھ حکومت کی ناکامی قرار دیا اور وفاقی وزارت داخلہ کے ایک ادارے نے پاکستان رینجرز کی قیادت میں وہاں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا ۔ کراچی میں امن تو کیا قائم ہونا تھا، حالات پہلے سے زیادہ بگڑ گئے ۔ وفاقی حکومت نے پورے ملک میں امن قائم کرنے کے لئے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا، جو کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ۔ ڈالر کی قدر میں کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات اور بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی بھی نہیں ہوئی ۔ نوجوانوں کو روزگار ملنے کے بجائے مختلف سرکاری اداروں سے ملازمین کو نکالا جا رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی نہیں ہوئی ہے۔ مخصوص لوگوں کو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے الاٹ کئے جا رہے ہیں۔ حکومت کے تمام داخلی اور خارجی امور ایک خاندان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاملے پر شکوک و شبہات کا ماحول بھی پیدا ہو گیا ہے ۔لوگوں کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ اگر پاکستان بین الاقوامی یا علاقائی سیاست میں اپنی حقیقی قومی ضرورتوں سے زیادہ الجھ گیا تو افراتفری ، انتشار اور بدامنی میں مزید اضافہ ہو گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصاً شریف برادران کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے یہ خدشات دور کریں ۔ پاکستان اب مزید کسی بے یقینی کا متحمل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کسی بڑے کھیل میں حصہ لینے کی اس میں سکت رہی ہے ۔ پاکستان کی سیاست کو بیرونی طاقتوں اور سرمائے کے اثر سے نکال کر دوبارہ عوام میں لانے کی ضرورت ہے۔ یہ تب ممکن ہو سکتا ہے جب سیاست دانوں میں بادشاہ بننے کی خواہش ختم ہو جائے۔