اشرافیہ کا تسلط اور ملکی مسائل

July 17, 2024

تحریر:محمد صادق کھوکھر… لیسٹر
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن کو بے پناہ قدرتی وسائل مہیا کئے ہیں، نیز انسانی وسائل سے بھی مالا مال کیا ہے، پاکستانی ہنر مندوں نے بیرونِ ملک اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے، دنیا بھر میں ہمارے سائنس دان، ڈاکٹر، انجینئر اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے اپنی قابلیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں جن کی پوری دنیا معترف ہے، دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ پاکستان میں پایا جاتا ہےو دیگر معدنیات بھی وافر مقدار میں ہیں، زرعی زمین سونا اگل رہی ہے لیکن بد قسمتی سے ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں ہے وہ نہ صرف نا اہل ہیں بلکہ انتہائی لالچی، سفاک اور کام چور بھی ہیں، یہ طبقہ بڑی بے دردی سے ملکی وسائل ہڑپ کررہا ہے۔ چند خاندانوں پر مشتمل یہ گروہ سول بیوریوکریسی، فوج، سیاسی میدان بلکہ ہر کلیدی عہدے پر براجمان نظر آتا ہے، ملک میں صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے مواقع ختم ہو چکے ہیں، موجودہ حکمران پارٹیوں کو دیکھ لیں، گزشتہ نصف صدی سے چند خاندان ہی مسلط ہیں۔ ان جماعتوں کے سربراہ اور دیگر عہدے داراپنے سارے کنبے کو پارلیمنٹ میں منتخب کرا کر من مرضی کرتے ہیں، اپنی مرضی کے مالیاتی اور دیگر قوانین بنا کر عوام پر لاگو کر دیتے ہیں، قوم کو آج جن مسائل کا سامنا ہے یہ انہی کے پیدا کردہ ہیں، بجلی کا بحران انہی کے دورِ حکمرانی میں پیدا ہوا اور پھر انہوں نے بجلی کی کمپنیز سے جو ظالمانہ معاہدے کئے یہ سب انہی کا کیا دھرا ہے، یہ سیاست دان بلدیاتی الیکشن نہیں کراتے، ٹریڈ یونین اور طلبہ یونین کے انتخابات نہیں کراتے، حتیٰ کہ ان کی اپنی پارٹیوں کے نام نہاد الیکشن میں بھی عام اراکین حصہ نہیں لے سکتے، ایسے معاملات میں یہ ہزار بہانے تراشتے ہیں چونکہ اپنے اختیارات میں یہ ذرا سی بھی کمی بیشی نہیں چاہتے اس لیے اختیارات نچلی سطع تک جانے نہیں دیتے، دور دراز گاؤں میں بھی اگر کوئی سڑک وغیرہ بنتی ہے تو وہاں بھی ان کے ناموں کے بورڈ آویزاں ہوتے ہیں، وجہ صاف ظاہر ہے کہ انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں نچلے طبقے سے سیاست دان ابھر کر سامنے نہ آ جائیں، اب بھی قرضے لے کر تنخواہیں بڑھائی جا رہی ہیں، مراعات میں کمی کی بجائے اضافہ کیا جاتا ہے اور قرضوں کا بوجھ غریب طبقے پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس غریب ملک میں چالیس ،چالیس لاکھ روپے وصول کرنے والے سرکاری ملازمین بھی موجود ہیں اور چند ہزار ماہانہ لینے والے مزدور بھی اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ لاکھوں کی تنخواہ پانے والے مراعات سے بھی فیضیاب ہوتے ہیں، ایسی مراعات جن کا کوئی حساب نہیں، انہیں بجلی اور پٹرول کی بھی ادئیگی نہیں کرنا پڑتی، عوام کو ان کی دھونس، انا، ہٹ دھرمی، تکبر اور قانون شکنی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے، حکومتی عہدے داروں کے پروٹوکول عیاشی کا دوسرا نام ہے، ایسی عیاشیاں دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں نہیں ہوتیں، محسوس ایسے ہوتا ہے کہ اربابِ اختیارعوام کو مستقل طور پر مفلوک الحال بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ رقم مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ وغیرہ پر صرف ہوتی ہے۔ پاکستان کا پانچ فیصد طبقہ ملک کی 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہے لیکن انہیں زرعی ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے، دوسری طرف تعلیم کا ستیاناس ہے۔ کوئی سیاست دان اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل نہیں کراتا۔ کیوں کہ ان کا معیار انتہائی پست ہے، کوئی بھی حکومت تعلیمی نظام کو یکساں کرنے کی کوشش اس لیے نہیں کرتی کیونکہ اس سے غریبوں کا فائدہ ہوتا ہے جس سے غریب ان کے مقابلے میں آسکتا ہے جس ملک میں ترقی کے مواقع یکساں نہ ہوں وہاں ترقی کیا خاک ہو گی، پاکستان میں ترقی کے مواقع برابر نہیں ہیں، غریب ایسے سرکاری سکولوں میں دھکے کھاتے ہیں جن کی حالت جانوروں کے باڑوں جیسی ہوتی ہے، جہاں کوئی شاذ و نادر ہی میٹرک پاس کر پاتا ہے، امیروں کے لیے خصوصی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں، متوسط طبقہ اگرچہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم پاتا ہے لیکن زندگی کے ہر میدان میں آگے وہی ہوتے ہے جو مخصوص تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوتے ہیں، کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ملک میں وسائل کی کمی نہیں بلکہ عادلانہ نظام کی کمی ہے، جب تک بالا دستوں کی بالا دستی ختم نہیں ہو گی ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے، ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو اصل مسائل سے آگاہی حاصل ہو کیونکہ آگاہی کے بغیر لائحہ عمل ممکن نہیں ہوتا۔